آج اسلام آباد ہائی کورٹ میں 55 بلوچ طلبا کی بازیابی سے متعلق درخواست کی اہم سماعت تھی جس میں عدالت کی جانب سے نگران وزیرِاعظم اور وزیرِ داخلہ سمیت دیگر سرکاری عدیداروں کو بھی طلب کر رکھا تھا۔
سماعت سے پہلے گیٹ پر موجود پولیس اہلکاروں نے جبری طور پر لاپتہ افراد کے رشہ داروں کو عدالت میں داخل ہونے سے یہ کہہ کر روک دیا کہ ’آپ کے پاس ان افراد کے رشتہ دار ہونے کا ثبوت نہیں۔‘
دلچسپ بات یہ ہے کہ ان پولیس اہلکاروں کے پاس بھی ان طلبا کے ناموں کی فہرست نہیں تھی جنھیں جبری طور پر لاپتہ کیا گیا تھا تاہم جب یہ معاملہ درخواست گزاروں کے وکلا جج جسٹس محسن اختر کیانی کے نوٹس میں لائے تو پھر انھیں کمرہ عدالت تک جانے کی اجازت دی گئی۔
عدالت کی طلبی کے باوجود نگراں وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ تو بیرون ملک ہونے کی وجہ سےعدالت میں پیش نہیں ہوئے البتہ وزیر داخلہ سرفراز بگٹی اور انسانی حقوق کے وزیر کمرہ عدالت میں پیش ہوئے۔
اس سے پہلے کہ جسٹس محسن اختر کیانی وزیر اعظم کی عدم حاضری کے بارے میں پوچھتے، اٹارنی جنرل منصور عثمان نے ایک لسٹ پیش کر دی۔ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ 55 میں سے 22 طلبا اپنے گھروں کو پہنچ چکے ہیں تاہم درخواست گزاروں کی وکیل ایمان مزاری کا کہنا تھا کہ وہ حکومتی دعوؤں کی اس وقت تک تصدیق نہیں کر سکتیں جب تک وہ ممکنہ طور پر بازیاب ہونے والے طلبا کے ورثا سے اس بات کی تصدیق نہیں کر لیتیں۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ ’جس طرح ملک میں لوگوں کو جبری طور پر لاپتہ کیا جا رہا ہے اس سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ملک میں لا اینڈ آرڈر نہیں اور جس کا جو جی چاہ رہا ہے وہ کیے جا رہا ہے۔‘
انھوں نے خفیہ ایجنسیوں کا نام لیے بغیر کہا کہ ’کسی ایجنسی کو استثنیٰ نہیں کہ وہ لوگوں کو کئی سال تک اٹھا کر لے جائے اور پھر بعد میں تھانہ آبپارہ کی پولیس کے حوالے کر دیں۔‘
واضح رہے کہ فوج کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی کا ہیڈ کوارٹر تھانہ آبپارہ کی حدود میں واقع ہے۔
عدالت نے وزیر داخلہ کو روسٹرم پر بلایا اور ان سے پوچھا کہ کیا انھوں نے تمام ایجنسیز کے حکام بالا کو بلا کر پوچھا ہے کہ ملک میں جبری گمشدگیاں کیوں ہو رہی ہیں۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے وزیر داخلہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’جبری طور پر گمشدہ ہونے والے افراد آپ کے اپنے اداروں کے پاس ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’ظلم تو یہ ہے کہ جن اداروں پر جبری طور پر لوگوں کو گمشدہ ہونے کا الزام ہے وہی ایسے واقعات کی تحقیقات کر رہے ہیں۔‘
وزیر داخلہ نے کہا کہ ’ایسا نہیں بلکہ بہت سارے لوگ سکیورٹی فورسز کے ہاتھ لڑتے ہوئے مارے گئے اور بہت سارے لوگ افغانستان چلے گئے ہیں۔‘
عدالت نے وزیر داخلہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’آپ کا اور وزیر اعظم کا تعلق بلوچستان سے ہے اور کل آپ لوگوں نے واپس جانا ہے۔
’کیا آپ کو ان افراد کی تکلیفوں کا احساس نہیں ہوتا جو بلوچستان سے یہاں اسلام آباد آ کر لاپتہ افراد سے متعلق قائم کمیشن کے سامنے پیش ہوتے ہیں۔‘
عدالت کا کہنا تھا کہ ملک کی حفاظت کے لیے سکیورٹی اداروں کی قربانیوں کو کسی طور پر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا لیکن ’جبری طور پر لاپتہ افراد کے معاملے سے بھی آنکھیں نہیں چرائی جا سکتیں۔‘
لاپتہ ہونے والے دو بھائیوں کی بہن کا عدالت میں زار و قطار رونا
عدالت اور وزیر داخلہ کے درمیان مکالمے چل رہے تھے کہ اسی دوران ایک لڑکی نے اونچی آواز میں بولنا شروع کر دیا اور کہا کہ ان کے دو بھائیوں کو سنہ 2018 میں ایک پکنک پوائنٹ سے اغوا کیا گیا اور آج تک ان کے گھر والوں کو ان کے بارے میں کوئی علم نہیں اور نہ ہی ان دونوں کو آج تک کسی عدالت میں پیش کیا گیا۔
اس لڑکی کا کہنا تھا کہ ’ہمارا سارا گھر ختم ہو گیا اور چھ سال سے زیادہ عرصے سے ہم دھکے کھا رہے ہیں لیکن ہماری شنوائی نہیں ہو رہی۔‘
یہ کہتے ہوئے وہ اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکیں اور انھوں نے زار و قطار رونا شروع کر دیا اور ان کے ساتھ آئی ہوئی خواتین نے انھیں دلاسہ دیا۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے وزیر داخلہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’کیا اس بچی کے سوالات کا آپ سمیت کسی کے پاس کوئی جواب ہے۔‘
انھوں نے وزیر داخلہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’اگر یہ طلبا 10 جنوری تک بازیاب نہ ہوئے تو آپ کے اور وزیراعظم کے خلاف پرچے کا آرڈر کروں گا اور مجھے نتائج کی کوئی پروا نہیں اور نہ ہی مجھے کوئی اپروچ کر سکتا ہے۔‘
سماعت ختم ہونے کے بعد وزیر داخلہ سے جب ایک صحافی نے یہ پوچھا کہ یہ 22 طالب علم کہاں سے بازیاب ہوئے تو وزیر داخلہ نے جواب دینے کی بجائے یہ کہا کہ مجھے معلوم ہے کہ آپ ایک نجی ٹی وی پر ٹاک شو کرتے ہیں۔
اس پر صحافی نے جواب دیا کہ آپ بےشک مجھ سے یہ پروگرام لے لیں لیکن میرے سوال کا جواب دے دیں لیکن وزیر داخلہ نے سوال کا جواب نہیں دیا۔
درخواست گزاروں کی وکیل ایمان مزاری نے سماعت ختم ہونے کے بعد اٹارنی جنرل کی جانب سے بازیاب ہونے والے طلبا کے رشتہ داروں سے رابطہ کیا تو ان میں سے زیادہ تر افراد نے ایمان مزاری کو بتایا کہ ابھی تک ان کے پیارے گھر نہیں پہنچے۔