حماس سے چھڑائے گئے یرغمالی ’اغواکاروں سے محبت کی بیماری‘ میں مبتلا

Facebook
Twitter
LinkedIn
Pinterest
Pocket
WhatsApp
حماس سے چھڑائے گئے یرغمالی ’اغواکاروں سے محبت کی بیماری‘ میں مبتلا

حماس سے چھڑائے گئے یرغمالی ’اغواکاروں سے محبت کی بیماری‘ میں مبتلا

اتوار کو اسرائیل نے رفح میں قائم اقوام متحدہ کے پناہ گزین کیمپ ”نصرنصرات“ پر امریکہ کی مدد سےانک حملہ کرکے اپنے چار مغوی حماس سے بازیاب کرانے کا دعویٰ کیا۔ اس دوران فلسطینیوں خصوصاً بچوں کا جو قتل عام ہوا وہ سوشل میڈیا پر جب وائرل ہوا تو دیکھنے والوں نے آنکھوں پر ہاتھ رکھ لئے۔ لیکن اسرائیل کو اس سے رتی برابر بھی فرق نہیں پڑا، کیونکہ اسے اب فکر ہے کہ رہا کرائے گئے مغوی اسرائیلی غذائی قلت کا شکار ہیں اور ان میں ”اسٹاک ہوم سنڈروم“ (اغوا کار سے محبت) کی علامات پائی گئی ہیں۔

عبرانی میڈیا کے مطابق، اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ جن چار مغویوں کو غزہ سے بازیاب کرایا گیا تھا، ان کی جسمانی اور نفسیاتی حالت خراب ہے۔

نوا ارگمانی، شلومی زیو، الموگ میر جان، اور آندرے کوزلوف کو شیبا میڈیکل سینٹر میں ابتدائی طبی ٹیسٹوں کے دوران غذائی قلت کا شکار پایا گیا، طبی پیشہ وروں کا خیال ہے کہ ان میں اسٹاک ہوم سنڈروم کی علامات ظاہر ہو رہی ہیں، کیونکہ بازیاب کرائے گئے یرغمالیوں نے بتایا کہ اغوا کاروں کو ان کی پرواہ تھی۔

بازیاب کرائے گئے یرغمالیوں نے اپنے تجربات کے بارے میں بات کرنا شروع کر دی ہے۔

اسرائیلی چینل 13 کے مطابق زیو نے کہا کہ اس نے الجزیرہ کی ان نشریات سے عربی زبان سیکھی ہے جو اس نے قید میں دیکھی تھیں اور ان کے اغوا کاروں نے انہیں ہر روز قرآن پڑھنے اور نماز پڑھنے پر مجبور کیا۔

وائی نیٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق، ارگمانی نے قید کے دوران عربی زبان سیکھی اور اسے دوسری خواتین یرغمالیوں کی ترجمان بننے کے لیے استعمال کیا گیا۔

اس نے بتایا کہ آٹھ ماہ کی اسیری کے دوران اسے چار مختلف اپارٹمنٹس میں رکھا گیا تھا اور آخری مقام پر، اس اپارٹمنٹ کی فیملی نے اسے اپنے برتن دھونے پر مجبور کیا۔ اس نے بعض اوقات بنیادی اجزاء کے ساتھ کھانا بھی پکایا جو اسے فراہم کیے گئے تھے۔

ہفتے کو ریسکیو کے بارے میں بتاتے ہوئے، ارگمانی نے کہا کہ وہ برتن دھو رہی تھی جب اس نے کمرے سے چیخنے کی آواز سنی اور لوگوں کو دیکھا جن کے چہرے ڈھکے ہوئے تھے جنہوں نے اسے بتایا کہ وہ اسرائیلی فورسز سے ہیں۔

اس نے کہا کہ ’پہلے، میں نے سوچا کہ وہ میرا مذاق اڑا رہے ہیں، اور میں نہیں ہلی، لیکن پھر اس نے مجھ سے پوچھا، کیا میں آپ کو اپنے کندھے پر اٹھا سکتا ہوں؟ اور مجھے احساس ہوا کہ کیا ہو رہا ہے‘۔

Source link

Facebook
Twitter
LinkedIn
Pinterest
Pocket
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

Related News

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *