لیکن کبھی کبھی ایسا کرنے سے مشکلات بھی پیدا ہو جاتی ہیں۔ بی بی سی 100 ویمن کے انٹرویو کے درمیان جب وہ ماحولیاتی تبدیلی کے بارے میں ہم سے بات کر رہی تھیں تو ہوٹل کے کمرے کی گھنٹی بجی۔
ہوٹل کے عملے کو جب یہ معلوم ہوا کہ وہ وہاں مہمان ہیں تو انھوں نے ان کی تصویروں کا ایک کولاج بنا کر انھیں تحفے کے طور پر پیش کیا۔
انھوں نے اس تحفے کو قبول کیا اور جیسے ہی وہ وہاں سے چلے گئے انھوں نے اپنی بات جاری رکھی۔ انھوں نے کہا ’ماحولیاتی تبدیلی کا سب سے بڑا مسئلہ انا پرست مرد ہیں جو بدلنا نہیں چاہتے۔‘
ان کا اشارہ بین الاقوامی کمپنیوں کے سربراہان کی طرف تھا۔ ’آلودگی پھیلانے والوں کو پتا ہے کہ ان کے فیصلے ہماری زمین اور لوگوں کو مار رہے ہیں اس وجہ سے ان کے پاس بدلنے کا کوئی بہانہ نہیں ہے۔‘
دیا مرزا اس سال کی بی بی سی 100 ویمن کی فہرست میں شامل ہیں۔ یہ فہرست دنیا کی 100 متاثر کن اور بااثر خواتین کی ہے۔
سنہ 2023 کی فہرست میں ایسی خواتین شامل ہیں جو ماحولیاتی تبدیلی پر کام کر رہی ہیں۔
دیا مرزا جنوبی انڈیا میں پیدا ہوئیں جہاں وہ سبزا زار سے گھری ہوئی تھیں۔ لہٰذا یہ بات حیران کن نہیں تھی کہ 20 سال پہلے جب ان کا فلموں اور ماڈلنگ میں کیریئر عروج پر جانا شروع ہوا تو انھوں نے ماحولیاتی تحفظ کی مہم کا حصہ بننے کا فیصلہ کیا۔
سنہ 2017 میں وہ اقوامِ متحدہ کی خیر سگالی سفیر بنیں جہاں انھوں نے اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام کے لیے بات کی۔
وہ انٹرویو میں اپنے بچپن کے دنوں کے بارے میں بار بار بات کرتی ہیں جب کپڑے بڑوں سے نئی نسل کو منتقل ہوتے تھے اور ہر سال پرانے کپڑے استعمال کرنا برا نہیں سمجھا جاتا تھا۔
وہ کہتی ہیں کہ اس روایت کو انھوں نے ایک بار پھر اپنے گھر میں شروع کیا ہے۔ مثال کے طور پر اپنے بیٹے کی دوسری سالگرہ کے موقع پر انھوں نے سفر پلاسٹک اور سفر ویسٹ پارٹی کی۔ یعنی سالگرہ میں استعمال ہونے والی سجاوٹ کو پھینکا نہیں گیا اور اب وہ دوبارہ استعمال ہو گی۔
وہ متعدد مرتبہ کہتی ہیں کہ ’ضروری ہے کہ جو آپ کہیں اس پر عمل کر کے مثال بنیں۔‘
دیا نے ہوٹل کی پلاسٹک کی بوتلیں استعمال کرنے سے انکار کرتے ہوئے اپنی ذاتی بوتل کو استعمال کرنے پر ترجیح دی۔
وہ پوچھتی ہیں کہ ’اگر میں خود اس پر عمل نہیں کرتی تو میں پائیدار زندگی کی وکالت کیسے کر سکتی ہوں۔‘
ہمارے درمیان ہونے والی گفتگو کا موضوع جنسی برابری کے گرد تھا جو نہ صرف ماحولیاتی تبدیلی بلکہ بحیثیت فلم اداکارہ ان کے تجربے سے منسلک رہا ہے۔
سال 2000 میں دیا مرزا 19 سال کی تھیں جب انھوں نے ایشیا پیسیفک مقابلہ حُسن جیتا تھا۔ اس وقت کو یاد کرتے ہوئے دیا نصیحت کرتی ہیں کسی کو بھی یہ حق نہ دیں کے وہ آپ کو انسان نہیں ایک چیز سمجھے۔
’میں نے مس ایشیا پیسیفک مقابلہ حسن میں ٹو پیس سوم سوٹ پہننے سے انکار کر دیا تھا۔‘
انھوں نے جلد ہی اپنے ماڈلنگ کیریئر کا آغاز کر دیا تھا لیکن انڈسٹری کے ایک شخص نے انھیں کہا تھا کہ وہ ممکنہ طور پر ماڈل بننے کے لیے بہت گوری اور خوبصورت ہیں لیکن یہ بات یقینی ہے کہ ان کا قد بہت چھوٹا ہے۔
دیا مرزا کہتی ہیں ’مجھے نہیں لگتا کہ اس کے کہنے سے میرے اوپر اثر ہوا تھا کیونکہ ایک شخص جسے کچھ بھی پتا نہیں تھا مجھے ایک ڈبے میں بند کر کے یہ فیصلہ کر رہا تھا کہ مجھے کیا کرنا اور کیا نہیں کرنا چاہیے۔‘
اپنے سارے کیریئر میں انھوں نے صنفی تعصب کا سامنا کیا۔
’جب میں نے کام کرنا شروع کیا تو فلم سیٹ پر پدرشاہی تھی، سیٹ پر بہت کم خواتین تھیں۔ مرد ساتھیوں کو دیر سے آنے اور غیر پیشہ ورانہ رویے کی اجازت تھی۔‘
’ہمارے پاس فلم اداکاراؤں کے لیے فلم کی لوکیشن کے باہر جگہیں بھی نہیں تھیں۔‘
ان ابتدائی تجربوں کے باوجود دیا مرزا مستقبل کو لے کر پُرامید ہیں اور کہتی ہیں کہ بہتری کی علامات نظر آ رہی ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’ایک دور تھا جب انڈین سینما میں ایک خاص عمر کے بعد عورتوں کو مرکزی کردار نہیں ملتا تھا۔‘ وہ کہتی ہیں کہ مردوں کو اب بھی مرکزی کردار ملتے ہیں اس بات سے قطع نظر کہ وہ اب جوان نہیں۔
’ہم نے دھک دھک نامی ایک فلم ریلیز کی ہے۔ یہ مختلف عمروں کی چار عورتوں پر مبنی خوبصورت کہانی ہے جو ساتھ موٹر سائیکل پر نکلتی ہیں۔‘
’انڈین فلم انڈسٹری کو ایسی کہانی بیان کرنے میں 110 سال لگے ہیں۔ میں نے ایسا کردار نبھانے کے لیے 23 سال انتظار کیا ہے۔‘
فلم انڈسٹری کے باہر دیا مرزا دوسرے شعبوں میں بھی صنفی برابری چاہتی ہیں۔ سنہ 2021 میں انھوں نے روایتی انڈین تقریب میں شادی کی جو کسی مرد کی بجائے ایک خاتون راببہ نے کروائی۔
’دراصل وہ اس خاتون راہبہ سے متاثر ہوئی تھیں جنھوں نے ان کی ایک دوسری دوست کی شادی بھی کروائی تھی۔ ’مجھے معلوم تھا کہ مجھے یہی چاہیے۔‘
’انڈیا میں اس پر بحث ہوئی کہ خواتین کو آج بھی کچھ کام کرنے کی اجازت کیوں نہیں ہے۔‘
انھوں نے ہمیشہ روایت توڑنے میں دلچسپی لی ہے۔ انھوں نے کنیادان کی رسم کی پیروی نہیں کی جس میں والد اپنی بیٹی کا ہاتھ دولہے کے ہاتھ میں دیتا ہے۔ ’میرے دادا کہتے تھے کہ بیٹیاں کوئی چیز نہیں جنھیں شادی پر کسی کو دیا جائے۔‘
’یہ اچھی سوچ ہے۔ میری ماں نے کہا تھا کنیادان کی رسم میری شادی پر نہیں ہو گی۔‘
بطور بالی وڈ رپورٹر میں نے دیا مرزا کے کیریئر پر نظر رکھی ہے۔ لوگ ان کی خوبصورتی کی تعریف کرتے ہیں، یہ جانے بغیر کہ وہ ماحولیاتی تحفظ کی حمایت بھی کرتی ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’مجھے نوجوانوں سے امید ملتی ہے۔ ان کی اختراعی صلاحیت، حل نکالنے کا ہنر اور مختلف سرگرمیاں کرنا اور سب سے اہم بات یہ کہ محبت اور دوسروں کا احساس کرنا۔‘
دیا انٹرویو ختم ہونے کا انتظار کرتی ہیں تاکہ وہ اپنے بیٹے سے مل سکیں۔ وہ نیچے ان کا انتظار کر رہا ہے۔
میں نے اس دوران ان سے آخری سوال پوچھا: آپ کو سب سے زیادہ کون سا رول پسند ہے، اداکار، ماحولیاتی کارکن یا اقوام متحدہ کی سفیر؟
جواب میں وہ کہتی ہیں کہ ’ایک ماں ہونا۔ میرے پاس یہ موقع ہے کہ میں دنیا کی مستقبل کی نسلوں کو بدل سکوں۔‘