امریکہ کے محکمۂ خارجہ کے ترجمان نے امریکی انٹیلی جنس اداروں کے حوالے سے بتایا ہے کہ شام میں دیگر ممالک کے لوگوں کی طرح پاکستانی باشندے بھی موجود ہیں لیکن اُنھیں یہ نہیں معلوم کہ وہ دولتِ اسلامیہ کے جنگجوؤں کی مدد کر رہے ہیں یا نہیں۔
امریکی محکمۂ خارجہ کے ترجمان ونے چاؤلہ نے بی بی سی کو بتایا کہ امریکہ کو معلوم ہے کہ دولتِ اسلامیہ کے جنگجوؤں کی مدد کے لیے خود امریکی شہری بھی شام گئے ہیں اِس کے علاوہ یورپ سے ایک ہزار افراد وہاں گئے ہیں لیکن اُن میں اکثریت مشرق وسطیٰ کے شہریوں کی ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ ’میں نہیں کہہ سکتا کہ پاکستان سے کتنے لوگ وہاں گئے ہیں لیکن ہم کو سمجھنا ہے کہ یہ دنیا بھر کا مسئلہ ہے۔‘
جب امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان سے پوچھا گیا کہ صدر اوباما دولتِ اسلامیہ کے خلاف جنگ میں پاکستان سے کس طرح کی مدد کی توقع کر رہے ہیں، تو اُن کا کہنا تھا کہ یہ پاکستان پر منحصر ہے اور اُسے خود یہ فیصلہ کرنا ہے کہ وہ کس طرح مدد کر سکتا ہے۔
’صدر اوباما نے کہا ہے کہ صرف فضائی حملے اِس مسئلے کا حل نہیں اِس کے علاوہ بھی کئی طریقوں سے مدد کی جا سکتی ہے، پاکستان کو دیکھنا ہوگا کہ وہ کس انداز میں دولتِ اسلامیہ کے خلاف عالمی برادری کا ساتھ دے سکتا ہے۔‘
سلامتی کونسل کے اجلاس میں صدر اوباما نے کہا تھا کہ دولتِ اسلامیہ کو اب صرف ختم کرنا ہے، مذاکرات کی کوئی گنجائش نہیں۔
ترجمان سے جب پوچھا گیا کہ امریکہ نے طالبان سے جنگ بھی کی اور پھر مذاکرات بھی کیے تو اگر دولتِ اسلامیہ بھی مذاکرات کرنے کا مطالبہ کرے تو کیا اُن سے بات چیت کی جائے گی؟
اِس سوال کے جواب میں ونے چاولہ کا کہنا تھا کہ وہ مستقبل کے بارے میں کوئی رائے زنی نہیں کر سکتے، لیکن موجودہ صورتِ حال اور دولتِ اسلامیہ کے جنگجوؤں کی کارروائیوں کو دیکھ کر مذاکرات کی گنجائش نہیں ہے۔
دولتِ اسلامیہ کو ختم کرنے یا اُن کی مدد کے لیے دیگر ممالک سے جانے والوں کو کس طرح روکا جائے گا، کیا اِس سلسلے میں کوئی نظام وضع کیا گیا ہے؟
اِس سوال کے جواب امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان کا کہنا تھا کہ امریکہ دولتِ اسلامیہ کے اثاثہ جات اور رقوم کی منتقلی کو روکنے کے لیے اقدامات کرے گا اور اُس بینکنگ سسٹم کا پتہ لگا کر وہاں سے رقوم کی منتقلی کو روکے گا جس کے ذریعے دولتِ اسلامیہ کو فنڈز فراہم کیے جا رہے ہیں۔