اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے مختصر فیصلہ سنایا۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی سائفر کیس میں سزا کے خلاف اپیل منظور کرتے ہوئے دونوں کی سزا کالعدم قرار دے دی۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو سائفر کیس سے میں بری کردیا۔ اپیلیں سننے والے بینچ میں چیف جسٹس عامرفاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب شامل ہیں۔
فیصلے سنائے جانے کے موقع پر پاکستان تحریک انصاف کی مرکزی قیادت اسلام آباد ہائیکورٹ میں موجود تھی۔ چئیرمین پاکستان تحریک انصاف بیرسٹرگوہر،علی محمد خان، فیصل جاوید اور شاندانہ گلزار بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے۔ بانی پی ٹی آئی کی بہنیں اور شاہ محمود قریشی کی اہلیہ اوربیٹیاں بھی کمرہ عدالت میں موجود تھیں۔
جسٹس عامر فاروق نے سائفر کیس میں سزا کی خلاف اپیلوں پر مختصر فیصلہ سنایا، اسلام آباد ہائی کورٹ نے سائفر کیس میں عمران خان، شاہ محمود قریشی کی اپیلیں منظور کرلیں۔
آج عدالت نے سائفر کیس میں اپیلوں پر سماعت مکمل کرلی تھی، عدالتی عملے نے بتایا تھا کہ سائفر کیس میں سزاؤں کے خلاف اپیلوں پر فیصلہ کچھ دیر بعد سنایا جائے گا۔
چیف اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کیس کی سماعت کی، عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی وکلا عدالت کے سامنے پیش ہوئے، ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد بھی عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔
سماعت کے آغاز پروکیل پراسیکیوشن نے بتایا کہ پراسیکیوٹر ذوالفقار عباسی نقوی 20 منٹ میں آرہے ہیں، اس پر عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم صرف آپ کے لیے بیٹھے رہیں اور کوئی کام نہیں؟ ہم نے ریگولر ڈویژن بینچ کینسل کیا ہے، کیا حامد علی شاہ صاحب نے وکالت نامہ واپس لے لیا ہے؟
اس پر اسسٹنٹ اٹارنی جنرل نے کہا کہ حامد علی شاہ صاحب سے ابھی بات ہوئی وہ والدہ کے پاس معروف ہسپتال میں ہیں، وکیل پراسیکیوشن نے کہا کہ سلمان صفدر بے شک چاہیں تو دلائل کا آغاز کر دیں۔
اس پر جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ میں نے پہلے کہا تھا ، 11 بجے ہم نے ٹائم کا بتا دیا تھا، اس کیس کی وجہ سے ریگولر ڈویژن بینچ کینسل کی ہے اور سرکاری وکلا نہیں ہیں۔
یاد رہے کہ 23 مئی کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں سابق وزیر اعظم عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے خلاف سائفر کیس پر سماعت کے دوران عدالت نے دریافت کیا کہ فوجداری کیس گواہوں پر جرح کیے بغیر کیس کیسے ختم ہوسکتا ہے؟
22 مئی کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق وزیر اعظم عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے خلاف سائفر کیس میں تعینات دونوں اسٹیٹ کونسلز کو بیان حلفی جمع کرانے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت ملتوی کردی تھی۔
سائفر کیس
سائفر کیس سفارتی دستاویز سے متعلق ہے جو مبینہ طور پر عمران خان کے قبضے سے غائب ہو گئی تھی، پی ٹی آئی کا الزام ہے کہ اس سائفر میں عمران خان کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے امریکا کی جانب سے دھمکی دی گئی تھی۔
ایف آئی اے کی جانب سے درج فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی ار) میں شاہ محمود قریشی کو نامزد کیا گیا اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی دفعات 5 (معلومات کا غلط استعمال) اور 9 کے ساتھ تعزیرات پاکستان کی سیکشن 34 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔
ایف آئی آر میں 7 مارچ 2022 کو اس وقت کے سیکریٹری خارجہ کو واشنگٹن سے سفارتی سائفر موصول ہوا، 5 اکتوبر 2022 کو ایف آئی اے کے شعبہ انسداد دہشت گردی میں مقدمہ درج کیا گیا تھا جس میں سابق وزیر اعظم عمران خان، شاہ محمود قریشی اور اسد عمر اور ان کے معاونین کو سائفر میں موجود معلومات کے حقائق توڑ مروڑ کر پیش کرکے قومی سلامتی خطرے میں ڈالنے اور ذاتی مفاد کے حصول کی کوشش کا الزام عائد کرتے ہوئے انہیں نامزد کیا گیا تھا۔
مقدمے میں کہا گیا کہ سابق وزیراعظم عمران خان، سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور ان کے معاونین خفیہ کلاسیفائیڈ دستاویز کی معلومات غیر مجاز افراد کو فراہم کرنے میں ملوث تھے۔
سائفر کے حوالے سے کہا گیا تھا کہ ’انہوں نے بنی گالا (عمران خان کی رہائش گاہ) میں 28 مارچ 2022 کو خفیہ اجلاس منعقد کیا تاکہ اپنے مذموم مقصد کی تکمیل کے لیے سائفر کے جزیات کا غلط استعمال کرکے سازش تیار کی جائے‘۔
مقدمے میں کہا گیا کہ ’ملزم عمران خان نے غلط ارادے کے ساتھ اس کے وقت اپنے پرنسپل سیکریٹری محمد اعظم خان کو اس خفیہ اجلاس میں سائفر کا متن قومی سلامتی کی قیمت پر اپنے ذاتی مفاد کے لیے تبدیل کرتے ہوئے منٹس تیار کرنے کی ہدایت کی‘۔
ایف آئی آر میں الزام عائد کیا گیا کہ وزیراعظم آفس کو بھیجی گئی سائفر کی کاپی اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان نے جان بوجھ کر غلط ارادے کے ساتھ اپنے پاس رکھی اور وزارت خارجہ امور کو کبھی واپس نہیں کی۔
مزید بتایا گیا کہ ’مذکورہ سائفر (کلاسیفائیڈ خفیہ دستاویز) تاحال غیر قانونی طور پر عمران خان کے قبضے میں ہے، نامزد شخص کی جانب سے سائفر ٹیلی گرام کا غیرمجاز حصول اور غلط استعمال سے ریاست کا پورا سائفر سیکیورٹی نظام اور بیرون ملک پاکستانی مشنز کے خفیہ پیغام رسانی کا طریقہ کار کمپرومائز ہوا ہے‘۔
ایف آئی آر میں کہا گیا کہ ’ملزم کے اقدامات سے بالواسطہ یا بلاواسطہ بیرونی طاقتوں کو فائدہ پہنچا اور اس سے ریاست پاکستان کو نقصان ہوا۔
ایف آئی اے میں درج مقدمے میں مزید کہا گیا کہ ’مجاز اتھارٹی نے مقدمے کے اندراج کی منظوری دے دی، اسی لیے ایف آئی اے انسداد دہشت گردی ونگ اسلام آباد پولیس اسٹیشن میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے سیکشنز 5 اور 9 کے تحت تعزیرات پاکستان کی سیکشن 34 ساتھ مقدمہ سابق وزیراعظم عمران خان اور سابق وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کے خلاف آفیشنل خفیہ معلومات کا غلط استعمال اور سائفر ٹیلی گرام (آفیشل خفیہ دستاویز)کا بدنیتی کے تحت غیرقانونی حصول پر درج کیا گیا ہے اور اعظم خان کا بطور پرنسپل سیکریٹری، سابق وفاقی وزیر اسد عمر اور دیگر ملوث معاونین کے کردار کا تعین تفتیش کے دوران کیا جائے گا‘۔