محمد حنیف کا کالم: ہنری کسنجر والا نشہ

Facebook
Twitter
LinkedIn
Pinterest
Pocket
WhatsApp
محمد حنیف کا کالم: ہنری کسنجر والا نشہ

اگر آپ ایک فرد کو قتل کریں تو آپ قاتل ہیں، اگر کسی سیاسی یا نظریاتی جنگ میں بے گناہ شہریوں کو نشانہ بنائیں تو دہشتگرد ہیں لیکن اگر آپ اپنی 100 سالہ زندگی میں لاکھوں لوگ مروائیں یا پھر جو ڈکٹیٹر اپنے لوگوں کو مارنے کے درپے ہیں ان کو اسلحہ اور حوصلہ دیں اور اگر آپ ایسا بار بار کریں، مشرقی ایشیا سے لے کر جنوبی امریکہ تک کریں تو آپ ایک عالی دماغ اور سفارتکار ہیں۔

ریاست سازی کے پہنچے ہوئے عالم ہیں، آپ کے ساتھ ہمارے بڑے تصویر کھنچوا کر اخباروں میں چھپوائیں گے، آپ کے ریٹائر ہونے کے بعد بڑے بڑے ملکوں کے چھوٹے چھوٹے حکمران بھاری فیس دے کر آپ سے نصف گھنٹے کا وقت لے کر حکمرانی کے اسرار و رموز سمجھنے آئیں گے اور آپ ہنری کسنجر کہلائیں گے۔

بچپن سے ہی سکھا دیا گیا تھا کہ دشمن بھی مر جائے تو خوشی نہیں کرنی چاہیے (بچپن میں یہ دیکھ کر بہت صدمہ پہنچا تھا کہ جنرل ضیا الحق کے طیارے میں ہلاک ہونے کی خبر سن کر آدھے گھنٹے تک لوگ سکتے میں تھے اور اس کے بعد سڑکوں پر بھنگڑے ڈال رہے تھے۔)

کسنجر ویسے بھی 100 کے ہو کر مرے ہیں، پنجابی کے محاورے کے مطابق کما کے، ہنڈا کے اور اردو محاورے کے مطابق اپنے آخری دم تک دنیا میں زہر پھیلا کر گئے ہیں۔

ویتنام، کمبوڈیا اور چلی کی نئی نسلیں تو شاید انھیں بھول گئی ہوں لیکن امریکہ کی کئی یونیورسٹیوں میں تحقیق اور کئی معتبر تاریخ دانوں کے مطابق ریاست سازی اور سفارتکاری کے نام پر انھیں خون کی ایک قدیمی پیاس تھی، جو بجھتی نہیں تھی۔

جب انھیں ںوبیل انعام ملا تھا تو کسی سیانے نے کہا تھا آج دنیا میں سیاسی مزاح کا باب ہمیشہ کے لیے بند ہو گیا۔ امریکہ کی مشہور ترین ٹیلی وژن پرسنیلٹی نے ایک بار کمبوڈیا جانے کے بعد کہا تھا کہ اگر آپ ایک دفعہ یہ ملک دیکھ لیں تو واپس جا کر ہنری کسنجر کی اپنے ہاتھوں سے اتنی پٹائی کریں گے کہ خالق حقیقی تک پہنچا دیں۔

کئی دانشوروں نے طویل کتابوں میں لکھا ہے کہ ہنری کسنجر کو عالمی عدالت کے کٹہرے میں ہونا چاہیے۔ اگر ملاشوچ پر مقدمہ چل سکتا ہے تو ہنری کسنجر پر لاکھوں لوگوں کے خون بہانے کے شواہد کہیں مضبوط ہیں۔

یونیورسٹیوں کے طلبا نے، کچھ پروفیسروں نے اور کچھ مزاح نگاروں نے ہنری کسنجر کا ناطقہ بند کرنے کی بہت کوشش کی لیکن آخری دنوں تک کسنجر مغربی اور مشرقی حکمرانوں کا سیاسی اور سفارتی گرو رہا۔

محمد حنیف کے دیگر کالم پڑھیے
ہنری کسنجر

،تصویر کا ذریعہGetty Images

ٹونی بلیئر اور براک اوبامہ جیسے انسان دوستی کا لبادہ پہنے حکمران تو اسے جگت استاد مانتے ہی ہیں، ہمارے اپنے مرحوم جنرل مشرف بھی ان سے گیان لینے پہنچ جاتے تھے۔

ورلڈ اکنامک فورم میں کسنجر کے ساتھ تصویر کھنچواتے ہوئے مشرف نے اتنے ادب اور احترام کے ساتھ ان کی کمر پر ہاتھ رکھا اور آنکھوں میں ایسی چمک ہے، جیسے خاندان کا بھولا بسرا بزرگ مل گیا ہو۔

پاکستان کا ہر فوجی حمکران چونکہ اپنے آپ کو چھوٹا موٹا نپولین سمجھتا ہے اس لیے وہ ہنری کسنجر جیسے لوگوں پر رشک کرتا ہے اور احترام دل سے نکلتا ہے کہ دیکھو اس بزرگ کو کارپٹ بمباری کروا کر، بچوں پر نیپام پھینک پھینک کر، دور دیسوں میں ہزاروں لوگوں کو صفحہ ہستی سے غائب کروا کر اس عمر میں بھی طاقت کے ایوانوں میں شیمپین کا گلاس ہاتھ میں پکڑے دنیا کو گیان بانٹ رہا ہے، ہم ایسے کیوں نہیں ہو سکتے۔

پاکستان کے ازلی حمکرانوں کو شاید یہ ہنری کسنجر اس لیے بھی یاد ہے کہ وہ 1971 میں بنگلہ دیش کی جنگ آزادی میں کھل کر پاکستان کے ساتھ کھڑا تھا اور بنگلہ دیش کو ’باسکٹ کیس‘ کہہ کر دھتکار دیا تھا۔

نہ ہمارے نپولین یاد رکھتے ہیں نہ انھیں ان کے اپنے اسلام آبادی ہنری کسنجر بتاتے ہیں کہ یہ عہد ساز شخصیت کھڑی تو ہمارے ساتھ تھی لیکن اس جنگ کا نتیجہ کیا نکلا اور جس بنگلہ دیش کو اس نے ’باسکٹ کیس‘ قرار دے دیا تھا وہ ان کی بات نہ مانا اور آج کل جنوبی ایشیا کا سب سے تیزی سے ترقی کرتا ملک بن گیا۔

ہنری کسنجر سے ایک قول منصوب کیا جاتا ہے کہ طاقت ہی سب سے بڑا نشہ ہے۔ ان کے انتقال پر ملال کے بعد دوبارہ تلاش کیا تو پتا چلا کہ انھوں نے فرمایا تھا کہ طاقت ہی قوت باہ بڑھانے والی سب سے اکسیر دوا ہے۔

تو اب چونکہ ہنری کسنجر انٹرنیشنل عدالت سے بچ کر، یونیورسٹی طلبا کے تلخ سوالوں پر غرا کر، کمبوڈیا سے غزہ تک کارپٹ بمباری کی سفارتی پالیسی ہمیں سمجھا کر اب آخری عدالت میں پیش ہونے جا رہے ہیں تو ہمارے اپنے مشاہیر اس کے ساتھ اتنے ادب سے تصویر کیوں کھنچواتے تھے۔

کیا وہ واقعی اس سے ریاست سازی کے، سفارتکاری کے گن سیکھنے جاتے تھے یا قوت باہ کو بڑھاوا دینے والی وہ گولیاں خریدنے جو وہ پوری دنیا میں بیچتا رہا۔

Source link

Facebook
Twitter
LinkedIn
Pinterest
Pocket
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

Related News

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *