محنت رنگ لے آئی، دماغی کینسر کا علاج ہوا اب ممکن،

Facebook
Twitter
LinkedIn
Pinterest
Pocket
WhatsApp
محنت رنگ لے آئی، دماغی کینسر کا علاج ہوا اب ممکن،

امریکی ماہرین نے کورونا سے تحفظ کی ٹیکنالوجی کی طرز پر دماغی کینسر کے علاج کی نئی ویکسین تیار کرلی، جس کے ابتدائی آزمائش کے نتائج حوصلہ کن آئے ہیں۔

طبی جریدے سیل میں شائع تحقیق کے مطابق امریکا کی یونیورسٹی آف فلوریڈا کے ماہرین نے ایم آر این اے ٹیکنالوجی کی ویکسین تیار کرکے پہلے اس کی آزمائش جانوروں پر کی، اس کے بعد اسے انسانوں پر بھی آزمایا گیا۔

ماہرین نے دماغی کینسر یعنی برین ٹیومر اور گلیوبلاسٹوما (Glioblastoma) کے علاج کی ویکسین تیار کی، جسے ابتدائی طور پر دماغی کینسر اور برین ٹیومر میں مبتلا 10 کتوں پر آزمایا گیا۔

ماہرین نے کتوں کے ایک گروپ کو نئی ویکسین دی جب کہ ایک گروپ کے کتوں کا روایتی انداز سے علاج کیا۔

تحقیق کے دوران روایتی علاج کروانے والے کتے پروگرام کے 60 دن کے اندر ہی بیماری کی وجہ سے ہلاک ہوئے جب کہ جنہیں ایم آر این اے ٹیکنالوجی سے تیار کردہ ویکسین دی گئی وہ 139 دن تک زندہ رہے، یعنی ان میں بیماری بڑھنے کی رفتار سست ہوگئی۔

کتوں پر کامیاب آزمائش کے بعد ماہرین نے اسے انسانوں پر بھی آزمایا اور دماغی کینسر میں مبتلا چار انسانوں کو پروگرام کے لیے منتخب کیا گیا۔

ماہرین نے برین ٹیومر میں مبتلا مریضوں کو نئی ویکسین دینے کے بعد ان کے دماغ میں ہونے والی تبدیلیوں کا جائزہ لیا۔

ماہرین کے مطابق ویکسین دیے جانے کے دو دن بعد مریض انسانوں کے دماغ میں تبدیلیاں ہونا شروع ہوئیں اور برین ٹیومر پگھلنا یا نرم ہونا شروع ہوگیا جو کہ کیموتھراپی یا ریڈی ایشن کے کئی ہفتوں بعد نرم ہوتا ہے۔

ماہرین نے نئی ویکسین کے لیے زیادہ سے زیادہ مریضوں پر آزمائش کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ابتدائی نتائج سے معلوم ہوا کہ ویکسین لگانے کے بعد انسان میں بیماری بڑھنے کی شرح سست ہوجاتی ہے۔

خیال رہے کہ ایم آر این اے ٹیکنالوجی پر بنائی گئی ویکسین انسانی جسم اور خصوصی طور پر بیمار سیلز کو پروٹین یعنی طاقت فراہم کرکے انہیں جسم کے اندر پیدا ہونے والی بیماریوں کے خلاف لڑنے کے لیے تیار کرتے ہیں۔

پہلی بار کورونا کی ویکسین میں اس ٹیکنالوجی کو استعمال کیا گیا تھا، تاہم مذکورہ ٹیکنالوجی پہلے سے ہی موجود تھی لیکن اس پر ویکسین اب بنانا شروع کیے گئے ہیں اور اس ٹیکنالوجی کو سب سے موثر قرار دیا جا رہا ہے۔

Source link

Facebook
Twitter
LinkedIn
Pinterest
Pocket
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

Related News

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *