
،تصویر کا ذریعہROYAL TYRELL MUSEUM OF PALAEONTOLOGY
سات کروڑ 50 سال پہلے اس دنیا میں رہنے والے ڈائنوسار جو دراصل ایک ٹائرینوسارس تھا نے اپنے آخری کھانے میں کیا کھایا تھا؟ سائنسدانوں نے بتایا ہے کہ اس نے نومولود ڈائنوسارز کھائے تھے۔
محقیقین کا کہنا ہے کہ اس ڈائنوسار اور بدقسمت دو چھوٹے ڈائنوسارز کی محفوظ باقیات نے ہمیں ان جانوروں کی کھانے پینے کی عادات کے بارے میں نئی معلومات دی ہیں۔
یونیورسٹی آف کیلگری کی ڈاکٹر ڈارلا زیلنسکی نے کہا کہ ’بہت ٹھوس ثبوت موجود ہیں جو ثابت کرتے ہیں کہ جیسے جیسے ٹائرینوسارس بڑے ہوتے ہیں ان کی خوراک میں یکسر تبدیلی آتی تھی۔‘
یہ نمونہ ایک نابالغ گورگوسارس کا ہے جسے بڑے جسم والے ٹائرینوسارس ریکس کا قریبی رشتہ دار بھی کہا جا سکتا ہے۔

،تصویر کا ذریعہBBC/ROYAL TYRELL MUSEUM OF PALAEONTOLOGY
اس گورگوسارس کی عمر سات سال تھی جس کا مطلب ہے وہ اپنی نوجوانی میں تھا۔ جب وہ ہلاک ہوا تو اس کا وزن 330 کلوگرام تھا جو کہ ایک بڑے بالغ گورگوسارس کے وزن کا دسواں حصہ ہے۔
اس کی پسلیوں میں ایک چڑیا کی طرح کے دو ڈائنوسار ’سیٹیپیز‘ کی ٹانگیں موجود ہیں۔
جرنل سائنس ایڈوانسز میں چھپنے والی تحقیق کی محقق ڈاکٹر ڈارلا کہتی ہیں ’اب ہمیں یہ پتا ہے کہ یہ نوعمر (ٹائرینوسارز) چھوٹے اور جوان ڈائنوسارز کھاتے تھے۔‘

،تصویر کا ذریعہJULIUS CSOTONYI
پہلے ملنے والے فوسل (باقیات) کے شواہد کی وجہ سے سانسدانوں کو یہ پتا چلا ہے کہ تین ٹن کے بالغ گورگوسارس جھنڈ میں رہنے اور سبزا کھانے والے بڑے ڈئنوسارز کو کھاتے تھے۔ ان شواہد میں ایسے فاسل بھی ہیں جن میں ٹائرینوسار کے دانتوں سے ملتے جلتے نشان بڑے ڈائنوسارز کی ہڈیوں پر ملے۔
رائل ٹائرل میوزیم آف پیلیونٹولوجی کے ڈاکٹر فرانکوئس تھیرین نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ بالغ ٹائرینوسارز بلاامتیاز کھاتے تھے۔ امکان ہے وہ بڑے شکار پر حملہ کرتے ’ہڈیوں تک کاٹتے اور گوشت نوچ لیتے۔‘
لیکن ڈاکٹر ڈالرا مزید کہتی ہیں کہ ’یہ چھوٹے نابالغ ٹائرینوسارز سینگوں والے ڈائنوسار کے غول پر حملہ کرنے کے لیے تیار نہیں تھے جن میں بالغوں کا وزن کئی ہزار کلوگرام تھا۔‘
پسلیوں سے نکلتی ہوئی پاؤں کی ہڈیاں
یہ فوسل 2009 میں کینیڈا کے البرٹا بیڈلینڈز میں ملے تھے۔ یہ ایسی جگہ ہے جہاں اکثر ڈائنوسارز کے فوسل ملتے ہیں۔ یہ چٹان میں دبے ہوئے تھے اور اسے تیار ہونے میں کئی سال لگے یہ چیز واضح نہیں تھی کہ اس کے اندر ان شکار کی ہڈیاں بھی ہیں۔
آخرکار میوزیم کے عملے نے پسلی میں سے نکلتی ہوئی پاؤں کی ہڈیاں دیکھیں۔
ڈاکٹر فرانکوئس بھی اس تحقیق میں شامل ہیں انھوں نے بتاتے ہیں کہ ’پسلی میں موجود پتھروں کو ہٹایا گیا تاکہ چھپی ہوئی چیزوں کو سامنے لایا جائے۔‘
انھوں نے کہا جب اسے ہٹایا گیا تو سامنے دو سال سے بھی کم عمر کے ڈائنوسارز کی ٹانگیں تھیں۔
ڈاکٹر ڈالرا کہتی ہیں کہ صرف ٹانگیں ملنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ نوعمر گورگوسارس کو ’ڈرم سٹکس چاہیے تھیں۔ شاید اس وجہ سے کہ یہ سب سے زیادہ گوشت والا حصہ ہوتا ہے۔‘

،تصویر کا ذریعہROYAL TYRELL MUSEUM OF PALAEONTOLOGY
ٹائرینوسارس ریکس کے مقابلے میں گورگوسارس قدیم ہے اور اس کا جسم اُس سے تھوڑا چھوٹا ہے۔ ڈاکٹر فرانکوئس کہتے ہیں کہ جب یہ مکمل طور پر بڑا ہو جاتا تھا تو ’بڑا اور صحت مند ٹائرانوسارس‘ بن جاتا۔
وہ بتاتے ہیں کہ عمر کے بڑھنے کے ساتھ ان میں تبدیلی آتی ’نابالغ کا جسم بھاری نہیں ہوتا تھا اور ان کی ٹانگیں لمبی ہوتی تھیں اور دانت بلیڈ کی شکل کے ہوتے تھے۔ بالغوں کے دانت زیادہ گول ہوتے تھے ہم انھیں ’کلر بنانا (جانلیوا کیلے)‘ کہتے ہیں۔‘
’یہ نمونہ بہت منفرد ہے۔ یہ نوعمروں کی مختلف خوراک کا ثبوت ہے۔‘
بالغ اپنے ’کلر بنانا‘ دانتوں سے کاٹتے اور کھرچتے تھے یہ نوعمر ڈائنوسار اپنے شکار کا انتخاب کرتا تھا اور اس کو چیر پھاڑ بھی لیتا تھا ’ٹانگوں کو کاٹ کر اکھاڑا اور انھیں نگل لیا۔‘

،تصویر کا ذریعہROYAL TYRELL MUSEUM OF PALAEONTOLOGY
یونیورسٹی آف ایڈنبرا اور سکاٹ لینڈ کے نیشنل میوزیم کے ماہر حیاتیات پروفیسر سٹیو بروساٹے نے کہا کہ ڈائنوسار کے پیٹ میں شکار کو دیکھ کر جانوروں کے بارے میں ایک حقیقی بصیرت ملی ’وہ صرف راکشس نہیں تھے، وہ حقیقی، جاندار اور خوبصورت تھے۔‘
1993 کی فلم جراسک پارک میں ٹائرینوسارس ریکس کے ایک سین میں اس دیو ہیکل ڈایناسور نے افسانوی تھیم پارک میں ایک کار کا پیچھا کیا تھا، سٹیو اسے یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’اگر اس زمانے میں گاڑیاں یا جیپ ہوتیں تو ایک بڑا، بالغ ٹائرینوسارز گاڑی کا پیچھا ہی نہیں کرتا۔ اس کا جسم بہت بڑا تھا اور وہ اتنا تیز نہیں بھاگ سکتا تھا۔‘
’گورگوسورس کی طرح آپ کو ٹائرینوسارس کے بچوں سے خطرہ ہوتا۔‘








