بی بی سی کو علم ہوا ہے کہ متحدہ عرب امارات اقوام متحدہ کی ماحولیاتی تبدیلی پر عالمی کانفرنس کی میزبانی کو دیگر ممالک کے ساتھ تیل اور گیس کے معاہدے کرنے کے موقع کے طور پر استعمال کرنے کی منصوبہ بندی کر رہا تھا۔
بی بی سی کو ایسی دستاویزات موصول ہوئی ہیں جن کے مطابق کوپ 28 کانفرنس میں شرکت کرنے والے 15 ممالک سے ایندھن کی فروخت کے معاہدوں پر بات چیت طے ہو چکی تھی۔
اقوام متحدہ کی تنظیم جو اس کانفرنس کی ذمہ دار ہے، نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ میزبان ملک سے توقع ہوتی ہے کہ وہ غیر جانبدار رہے اور ذاتی فوائد سے گریز کرے۔
دوسری جانب متحدہ عرب امارات میں اس کانفرنس کا انتظام کرنے والی ٹیم نے کاروباری مذاکرات کی تردید نہیں کی اور کہا ہے کہ ’نجی ملاقاتیں نجی ہوتی ہیں۔‘
تاہم ان ملاقاتوں میں ہونے والی بات چیت کے بارے میں مؤقف فراہم کرنے سے انکار کرتے ہوئے ٹیم نے کہا کہ ان کا کام مثبت ماحولیاتی کارروائی پر مرکوز ہے۔
بی بی سی کے ساتھ کام کرنے والے سینٹر فار کلائمیٹ رپورٹنگ سے منسلک آزاد صحافیوں کو دستیاب دستاویزات کو متحدہ عرب امارات میں کوپ 28 کانفرنس کی ٹیم نے تیار کیا جن کے مطابق 30 نومبر کو شروع ہونے والے اجلاس سے قبل 27 ممالک سے ملاقاتیں طے کی گئیں۔
ان میں چین کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے مواد شامل ہے جس کے مطابق متحدہ عرب امارات کی سرکاری تیل کمپنی ایڈناک موزمبیق، کینیڈا اور آسٹریلیا میں مشترکہ طور پر بین الاقوامی ایل این جی مواقع کا تجزیہ کرنے کی خواہشمند ہے۔
ان دستاویزات سے عندیہ ملتا ہے کہ کولمبیا کے ایک وزیر کو بتایا گیا کہ ایڈناک ان کے ملک کو مقامی ایندھن وسائل کی تیاری میں مدد فراہم کرنے کو تیار ہے۔
اسی طرح 13 ممالک بشمول جرمنی اور مصر سے بات چیت کے نکات موجود ہیں جن کے مطابق ایڈناک ان حکومتوں کے ساتھ بھی کام کرنے کی خواہشمند ہے۔
متحدہ عرب امارات کی جانب سے ملک کی توانائی کمپنی ’مسدار‘ کے لیے کاروباری مواقع تلاش کرنے کی بھی تیاری کی گئی اور 20 ممالک سے مذاکرات طے کیے گئے جن میں برطانیہ، امریکہ، فرانس، جرمنی، نیدرلینڈ، برازیل، چین، سعودی عرب، مصر اور کینیا شامل ہیں۔
یاد رہے کہ کوپ 28 عالمی موسمیاتی تبدیلی پر اقوام متحدہ کا اجلاس ہے جو رواں سال دبئی میں منعقد ہو رہا ہے اور 167 ممالک کے سربراہان بشمول پوپ اور شاہ چارلس سوم اس میں شرکت کریں گے۔
اس اجلاس کے دوران موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے اہم ملاقاتیں ہونا ہیں اور اس بات کی امید کی جا رہی ہے کہ اس اجلاس میں عالمی درجہ حرارت کو بڑھنے سے روکنے کے بارے میں فیصلے ہو سکیں گے۔ تاہم ایسا کرنے کے لیے گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں کافی کمی کرنے کی ضرورت ہے۔ ماہرین کے مطابق 2030 تک 43 فیصد تک کمی کی ضرورت ہے۔
اس اجلاس کی تیاری کرنے والی متحدہ عرب امارات کی ٹیم نے مختلف حکومتوں کے نمائندوں سے ملاقاتیں طے کر رکھی ہیں۔
ان ملاقاتوں کی سربراہی کوپ 28 کے صدر ڈاکٹر سلطان الجبر کریں گے۔ ہر سال میزبان ملک اپنے ایک نمائندے کو کانفرنس کے صدر کے طور پر تعینات کرتا ہے جس کی اہم ذمہ داریوں میں غیر ملکی حکومتوں کے نمائندوں سے ملاقات کرنا بھی شامل ہوتا ہے۔ کانفرنس کے صدر کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں کمی پر دیگر ممالک کو آمادہ کیا جائے۔
تاہم بی بی سی کو موصول ہونے والی دستاویزات ڈاکٹر سلطان الجبر کے لیے ہی تیار کی گئی تھیں جو متحدہ عرب امارات کی سرکاری تیل کمپنی ایڈناک کے سی ای او ہونے کے علاوہ ملک کی توانائی کمپنی مسدار کے بھی سربراہ ہیں۔
ان دستاویزات میں ملاقاتوں کے مقاصد پر مشتمل خلاصہ شامل ہے جن میں ان وزرا یا حکام کے بارے میں معلومات شامل ہیں جن سے ڈاکٹر سلطان کو ملنا ہے۔ تقریبا دو درجن ممالک کے ساتھ ملاقاتوں کے بارے میں تیار دستاویزات میں ایڈناک اور مسدار کی جانب سے بھی نکات شامل کیے گئے ہیں۔
برازیلی وزیر ماحولیات سے لاطینی امریکہ کی سب سے بڑی تیل اور گیس کمپنی براسکم کے ساتھ ایڈناک کے اشتراک کے لیے مدد مانگی جانی تھی۔ رواں ماہ ایڈناک نے براسکم میں دو عشاریہ ایک ارب ڈالر کی رقم سے ایک بڑا حصہ خریدنے کی پیشکش کی تھی۔
جرمنی کو بتایا جانا تھا کہ ایڈناک ایل این جی کی فراہمی جاری رکھنے کے لیے تیار ہے۔
بی بی سی نے ایک ای میل بھی دیکھی ہے جس میں کوپ 28 کے اراکین کو ایڈناک اور مسدار کے نکات کے بارے میں کہا گیا کہ انھیں ہمیشہ ملاقات کے نوٹس میں شامل رکھا جائے۔ کوپ 28 ٹیم کا کہنا ہے کہ ’یہ درست نہیں۔‘
یہ واضح نہیں کہ ڈاکٹر سلطان نے کتنی بار ان نکات کو غیر ملکی حکومتوں سے ملاقاتوں کے دوران اٹھایا۔ تاہم کم از کم ایک موقع کے بارے میں ہم جانتے ہیں جس میں ایک ملک نے کوپ 28 ٹیم کی جانب سے طے شدہ ملاقات کے بعد کمرشل معاملات پر بات چیت کے حوالے سے کام کیا۔
تاہم 12 ممالک نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ ان ملاقاتوں میں ایسی کسی سرگرمی پر بات نہیں ہوئی یا پھر سرے سے ملاقات ہی نہیں ہوئی۔ ان میں برطانیہ بھی شامل ہے۔
لیک ہونے والی دستاویزات کے مطابق کوپ 28 کے صدر کو تاکید کی گئی تھی کہ برطانیہ میں نورفوک کے ساحل پر شیرنگھم کے قریب ایک ونڈ فارم کے لیے دستیاب علاقے کو دگنا کرنے کے لیے برطانوی حکومت کی حمایت مانگی جائے جس میں مسدار کا بھی حصہ ہے۔
یاد رہے کہ کوپ 28 سے منسلک سرگرمیوں کے دوران کاروباری معاہدے کرنا کانفرنس کے صدر سے متوقع عمل کے منافی ہے۔ یہ اقدار اقوام متحدہ کی اس تنظیم نے طے کی ہیں جو ماحولیاتی تبدیلی کی ذمہ دار ہے۔
یونائیٹڈ نیشن فریم ورک کنوینشن آن کلائیمیٹ چینج ’یو این ایف سی سی سی‘ نے کہا ہے کہ بنیادی طور پر کوپ صدر اور ان کی ٹیم کو غیر جانبدار رہنا ہوتا ہے۔
یو این ایف سی سی سی کے مطابق ’کوپ صدر سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ کسی تعصب، ذاتی مفاد سے دور رہتے ہوئے آزادانہ اور منصفانہ طریقے سے کام کریں گے۔‘
’ان سے یہ توقع بھی کی جاتی ہے کہ وہ ذاتی خیالات کو اپنے کام کے آڑے نہیں آنے دیں گے۔‘
2014 میں پیرو میں ہونے والے کوپ 20 اجلاس کے سربراہ مینوئیل پلگر وڈال کو خدشہ ہے کہ اعتماد میں فقدان کے باعث دبئی میں ہونے والے اجلاس کے دوران کسی معاملے پر پیش رفت مشکل ہو جائے گی۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’کوپ صدر دنیا کا سربراہ ہوتا ہے جو کرہ ارض کی جانب سے اتفاق رائے قائم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔‘
’اگر کوپ صدر ہی ایک مخصوص مفاد، کمرشل مفاد، پر بات کرنے کی کوشش کرے گا تو یہ کوپ کی ناکامی ہو گی۔‘
شیفیلڈ یونیورسٹی کے پروفیسر مائیکل جیکبز اقوام متحدہ کی ماحولیاتی تبدیلی کی سیاست کے ماہر ہیں۔ انھوں نے کہا کہ کوپ ا28 کی ٹیم کی سرگرمیاں ’نہایت دوغلی لگ رہی ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’میرے خیال میں یہ اس سے بھی بُرا ہے کیوں کہ متحدہ عرب امارات اقوام متحدہ کے ایک ایسے عمل کا امین ہے جو عالمی حدت کو کم کرنے کا ارادہ کرتا ہے۔ اور اسی وقت جب اس مقصد کو پورا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، متحدہ عرب امارات ایسے معاہدے کرنے کی کوشش کر رہا ہے جس سے یہ اخراج بڑھے گا۔‘
بریفنگ کی دستاویزات میں شامل متعدد مجوزہ منصوبے تیل اور گیس کے نئے ذخائر کے بارے میں ہیں۔ بین الاقوامی توانائی ایجنسی کا کہنا ہے کہ اگر زمین کے درجہ حرارت کو ایک عشاریہ پانچ کے ہدف سے نیچے رکھنا ہے تو تیل اور گیس کے نئے ذخائر پر کام روکنا ہو گا۔
گزشتہ ماہ کوپ 28 کی پریس کانفرنس کے دوران ڈائریکٹر جنرل ماجد السویدی نے کہا تھا کہ متحدہ عرب امارات میں کوپ اٹھائیس کی ٹیم مکمل طور پر ایڈناک اور مسدار پر انحصار نہیں کر رہی ہے۔
انھوں نے کہا تھا کہ ’کوپ 28 اپنی خودمختاری کے بارے میں واضح ہے۔‘
کوپ 28 کی ٹیم نے ایک بیان میں بی بی سی کو بتایا ہے کہ ’ڈاکٹر سلطان کوپ 28 کے صدر ہونے کے ساتھ کئی عہدے رکھتے ہیں جو عوامی طور پر معلوم ہے اور اس بارے میں آغاز سے ہی سب کو آگاہ کیا گیا تھا۔‘
بیان میں کہا گیا کہ ڈاکٹر سلطان کوپ کی سرگرمیوں پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ لیک ہونے والی دستاویزات کے باعث متحدہ عرب امارات پر لگنے والے الزامات سنجیدہ نوعیت کے ہیں لیکن اس کانفرنس اور متحدہ عرب امارات کی صدارت اور میزبانی کی کامیابی کا نتیجہ اجلاس میں حاصل ہونے والے نتائج سے طے ہو گا۔
یہ اجلاس 12 دسمبر کو ختم ہو گا۔