پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع کوہستان میں ایک لڑکے اور لڑکی کی سوشل میڈیا پر تصاویر وائرل ہونے کے بعد لڑکی کو قتل کر دیا گیا ہے جبکہ لڑکے کو پولیس نے اپنی حفاظتی تحویل میں لے لیا ہے۔
پولیس نے لڑکی کے قتل کا مقدمہ اپنی مدعیت میں درج کیا ہے۔ پولیس کے مطابق قتل کے الزام میں لڑکی کے والد کو گرفتار کر لیا گیا جبکہ لڑکی کا چچا ابھی فرار ہے۔
واضح رہے کہ ضلع کوہستان میں اسی طرح کے ایک دوسرے واقعے میں بھی ایک اور لڑکے اور لڑکی کی تصاویر بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں تو پولیس نے لڑکی کو حفاظتی تحویل میں لے کر عدالت میں پیش کیا۔
لڑکی نے عدالت میں بیان دیا کہ اس کو کوئی خطرہ نہیں، جس کے بعد اس کو اپنے والدین کے ساتھ جانے کی اجازت دے دی تاہم اس واقعے میں جس لڑکے کا نام سامنے آ رہا ہے، وہ مفرور ہے۔
ضلع کوہستان خیبر پختونخوا کا انتہائی دور افتادہ اور پسماندہ علاقہ ہے۔ سنہ 2012 میں بھی ضلع کوہستان کے علاقے پالس میں مئی 2010 میں ہونے والی ایک شادی کی تقریب کی ویڈیو منظر عام پر آئی تھی جس میں چار لڑکیوں کی تالیوں کی تھاپ پر دو لڑکے روایتی رقص کر رہے تھے۔
یہ ویڈیو منظر عام پر آنے کے بعد ویڈیو میں رقص کرنے والے بن یاسر اور گل نذر کے بھائی افضل کوہستانی نے دعویٰ کیا تھا کہ ویڈیو میں نظر آنے والی لڑکیوں کو ذبح کر کے قتل کر دیا گیا ہے تاہم گذشتہ برسوں کے دوران افصل کوہستانی سمیت ان کے چار بھائیوں کو بھی قتل کیا جا چکا ہے۔
اس کے بعد بھی کوہستان سے ایسے کئی واقعات رپورٹ ہو چکے ہیں، جب خواتین کو نام نہاد غیرت کے نام پر قتل کیا گیا ہو۔
’والد اور چچا نے فائرنگ کر کے گھر کے اندر ہی قتل کر دیا‘
کوہستان کے تھانہ پالس میں ایس ایچ او نور محمد خان کی مدعیت میں درج مقدمے میں کہا گیا ہے کہ قتل کی اطلاع ملنے پر جب وہ جائے وقوعہ پر پہنچے تو وہاں پر مقتولہ کی لاش خون میں لت پت پڑی تھی۔
درج مقدمے میں کہا گیا ہے کہ مقتولہ کی کسی لڑکے کے ساتھ تصاویر وائرل ہوئی تھیں، جس کے بعد مقتولہ کے والد اور چچا نے پستول سے فائرنگ کر کے لڑکی کو گھر کے اندر ہی مار دیا۔
کوہستان پولیس نے بی بی سی کو بتایا کہ سوشل میڈیا پر دو لڑکیوں کی دو مختلف لڑکوں کے ساتھ تصاویر وائرل ہوئی اور دونوں لڑکے ایک دوسرے کے رشتہ دار ہیں۔
ہولیس کے مقامی طور پر جرگہ منعقد کیا گیا اور چاروں کو ’چور‘ قرار دیا گیا تھا۔
واضح رہے کہ کوہستان میں جس شخص کو بھی نام نہاد غیرت کے نام پر قتل کرنا ہو تو اسے ’چور‘ قرار دیا جاتا ہے۔ جس کے بعد مقامی رسم و رواج کے مطابق اس شخص کا قتل لازم ہو جاتا ہے۔
کوہستان پولیس کے مطابق انھوں نے دوسری لڑکی کو اپنی حفاظتی تحویل میں لیا اور عدالت میں پیش کیا تاکہ اس کو دارالمان منتقل کرنے کے احکامات حاصل کیے جائیں مگر عدالت میں لڑکی نے بیان دیا کہ اس کو اپنے والدین سے کوئی خطرہ نہیں۔
کوہستان پولیس کے مطابق اس کے بعد مذکورہ لڑکی کے والدین کو تنبیہ کی گئی اور ان سے 30 لاکھ روپے کے حفاظتی مچلکے حاصل کیے۔
پولیس وردی میں لڑکے کو محفوظ مقام پر پہنچایا گیا
پالس کے گاؤن برشریال سے مقامی ذرائع نے بتایا ہے کہ لڑکی کے قتل کے بعد نوجوان اپنی جان کے خوف سے خفیہ مقام پر چھپا ہوا تھا لہذا اس نے پولیس سے مدد طلب کی۔
نوجوان کو اپنی حفاظتی تحویل میں لینے کے لیے پولیس کی بھاری نفری موقع پر پہنچی اور حفاظت کے پیش نظر اس کو پولیس اہلکار کی وردی پہنائی گئی تھی۔
پولیس کے مطابق لڑکے نے ان کے سامنے دعوی کیا ہے کہ یہ تصویر جعلی ہے اور اس کے پیچھے کوئی سازش ہے۔
پولیس کے مطابق لڑکے کا دعویٰ ہے کہ ’یہ ہمیں مروانے کی سازش کی گئی ہے۔‘
مقامی ذرائع کے مطابق دونوں لڑکیوں کی لڑکوں کے ساتھ تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں، جس کے بعد علاقے میں کشیدگی پیدا ہوئی۔
ڈی ایس پی کولئی پالس مسعود خان نے بتایا ہے کہ تصاویر وائرل ہونے کے بعد مقامی رسم و رواج کے مطاق لڑکیوں اور لڑکوں کے قتل کے خدشے کے پیش نظر پولیس فعال ہے۔
’ابھی تک پولیس نے تین لوگوں کومحفوظ رکھا ہے لیکن ایک لڑکی کو فوراً ہی قتل کر دیا گیا۔‘
مسعود خان کے مطابق پولیس اپنے فرائض تندہی سے انجام دے رہی ہے جبکہ قانون کی عملداری پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو گا۔ درج مقدمے میں قتل کی دفعات کے علاوہ غیرت کے نام پر قتل کی دفعات بھی شامل کی گئی ہیں جن میں راضی نامہ یا صلح کی اجازت نہیں۔