یمن میں موت کی سزا کی منتظر کیرالہ کی نرس نمیشا جن کی آخری امید ’خون بہا‘ ہے –

Facebook
Twitter
LinkedIn
Pinterest
Pocket
WhatsApp
یمن میں موت کی سزا کی منتظر کیرالہ کی نرس نمیشا جن کی آخری امید ’خون بہا‘ ہے  –
،تصویر کا کیپشننمیشا اس وقت یمن کی جیل میں پھانسی کی منتظر ہیں

انڈیا کی جنوبی ریاست کیرالہ کی رہائشی نمیشا پریہ ابھی بمشکل 19 سال کی تھیں جب وہ سنہ 2008 میں بڑے بڑے خوابوں کے ساتھ یمن کے لیے روانہ ہوئیں۔

انھیں دارالحکومت صنعا کے ایک سرکاری ہسپتال میں بطور نرس کا کام ملا تھا۔ نمیشا کی والدہ گزر بسر کے لیے لوگوں کے گھر میں کام کاج کرتی تھیں اور نمیشا نے یہ ملازمت ملنے پر اپنی والدہ سے کہا تھا کہ ان کی مشکلات کے اب دن جلد ختم ہو جائیں گے۔

لیکن نمیشا اور ان کے اہل خانہ کے لیے 15 سال بعد یہ سب ایک ڈراؤنے خواب میں بدل گیا کیونکہ انھیں 34 سالہ مقامی شخص طلال عبدو مہدی کے قتل کے الزام میں سزائے موت سنائی گئی ہے۔

وہ جنگ زدہ ملک کے دارالحکومت صنعا کی سینٹرل جیل میں فی الحال اپنے آخری دن گن رہی ہیں۔

13 نومبر کو یمن کی سپریم جوڈیشل کونسل نے ان کی اپیل کو مسترد کرتے ہوئے پھانسی کی سزا برقرار رکھی۔

لیکن چونکہ یمن میں شرعی قانون کی پیروی کی جاتی ہے اس لیے عدالت نے انھیں موت سے بچنے کا ایک آخری آپشن دیا ہے جس کے تحت وہ دیت یا ’خون بہا‘ ادا کر کے متاثرین کے اہل خانہ سے معافی حاصل کر سکتی ہیں۔

اس کے لیے اب نمیشا کے اہل خانہ اور ان کو بچانے کی مہم چلانے والے لوگ کوشش کر رہے ہیں لیکن ان کے پاس وقت کم ہے۔ وہ اس حالت میں کسی معجزے کی امید کر رہے ہیں کہ کسی طرح نمیشا کو معافی مل جائے اور ان کی زندگی بچ جائے۔

پریما کماری
،تصویر کا کیپشننمیشا کی والدہ پریما کماری اپنی بیٹی کو بچانے کی جدوجہد میں لگی ہیں

’بدلے میں میری جان لے لو‘

اپنی بیٹی کی آزمائش کو بیان کرتے ہوئے نمیشا کی 57 سالہ ماں پریما کماری بار بار ضبط کا دامن ہاتھ سے چھوڑ بیٹھتی ہیں۔

جنوبی ہند کے شہر کوچی میں رہنے والی پریما کماری کہتی ہیں: ’میں یمن جا کر ان سے معافی مانگوں گی، میں ان سے کہوں گی، میری جان لے لو لیکن میری بیٹی کی زندگی بخش دو۔ نمیشا کی ایک نو عمر بیٹی ہے جسے اپنی ماں کی ضرورت ہے۔‘

تاہم یمن تک کا سفر ان کے لیے ہرگزآسان نہیں۔ یمن کا سفر کرنے والے شہریوں پر سنہ 2017 سے انڈین حکومت کی پابندی برقرار ہے اور جن لوگوں کو سفر کرنے کی ضرورت ہے انھیں خصوصی اجازت نامہ درکار ہوتا ہے۔

’سیو نمیشا پریہ‘ کے تحت انٹرنیشنل ایکشن کونسل نامی ایک لابی گروپ نے دہلی ہائی کورٹ میں ایک درخواست دائر کی ہے جس میں نمیشا کی ماں اور ان کی 11 سالہ بیٹی مشال کے لیے صنعا جانے کی اجازت مانگی گئی ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ اس سفر میں کونسل کے دو ارکین ان کے ساتھ ہوں گے۔

تاہم گذشتہ جمعہ کو انڈین حکام نے یہ کہتے ہوئے درخواست مسترد کر دی کہ یمن میں ان کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے انڈیا کی سفارتی سپورٹ موجود نہیں ہے۔

حکومت کا یہ موقف یمن کی سیاسی صورتحال پر مبنی ہے۔ صنعا پر حوثی باغیوں کا کنٹرول ہے جو یمن کی سرکاری حکومت کے ساتھ طویل خانہ جنگی میں برسرپیکار ہیں۔ یمن کی سرکاری حکومت سعودی عرب میں جلاوطنی کے عالم میں ہے۔

انڈیا حوثیوں کو تسلیم نہیں کرتا اس لیے انڈین شہریوں کے لیے یمن کا سفر پر خطر ہے۔ صنعا جانے کے لیے انھیں عدن جانا ہوگا اور پھر وہاں سے 12 سے 14 گھنٹے تک سڑک کے ذریعے سفر کر کے ہی وہ صنعا پہنچ سکتے ہیں۔

نمیشا پریا اور ٹونی تھامس کی شادی
،تصویر کا کیپشننمیشا پریا اور ٹونی تھامس کی شادی جون سنہ 2011 میں ہوئی

دہلی ہائی کورٹ سے یمن جانے کی اجازت

سیونمیشا کونسل نے ایک بار پھر دہلی ہائی کورٹ سے رجوع کیا ہے تاکہ نمیشا کی ماں اور ان کی بیٹی کو یمن جانے کی اجازت مل جائے۔ لیکن ہر گزرتے دن کے ساتھ پریما کماری کی مایوسی بڑھتی جا رہی ہے۔ وہ کہتی ہیں: ’میں نہیں چاہتی کہ میری بیٹی پردیس میں مر جائے۔‘

سماجی کارکن اور سیو نمیشا کونسل کے رکن بابو جان کہتے ہیں کہ ’نمیشا کے ساتھ جو ہوا وہ انتہائی افسوسناک ہے، وہ اس کی مستحق نہیں ہے۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ نمیشا ایک روشن مستقبل کی طرف دیکھ رہی تھیں لیکن خانہ جنگی شروع ہونے پر یمن میں پھنس کر رہ گئیں۔

نمیشا کی والدہ پریما کہتی ہیں کہ میری بیٹی پڑھائی میں اچھی تھی اور مقامی چرچ نے اس کی سکول کی تعلیم میں مدد کی اور اس کے نرسنگ ڈپلومہ کورس کے اخراجات بھی اٹھائے۔ لیکن وہ کیرالہ میں نرسنگ کی نوکری کے لیے نااہل تھی کیونکہ اس نے ڈپلومہ کرنے سے پہلے اپنے سکول کے امتحانات پاس نہیں کیے تھے۔‘

یمن میں ملازمت کا مطلب ان کے لیے غربت و افلاس کی زندگی سے باہر نکلنے کا ٹکٹ تھا۔

وہ سنہ 2011 میں اپنے اہل خانہ کی طرف سے طے کیے گئے رشتے پر ٹومی تھامس سے شادی کرنے کے لیے انڈیا واپس آئی تھیں۔

شادی کے بعد نو بیاہتا جوڑا یمن پہنچا جہاں نمیشا کے شوہر کو الیکٹریشن کے معاون کے طور پر معمولی تنخواہ پر کام مل گیا۔ دسمبر 2012 میں ان کے ہاں بیٹی کی پیدائش ہوئی اور اس کے بعد انھوں نے روزی کے لیے جدوجہد کرنی شروع کر دی اور 2014 میں تھامس بچی کے ساتھ کوچی واپس چلے آئے جہاں وہ اب بیٹری رکشہ ’ٹُک ٹُک‘ چلاتے ہیں۔

نمیشا نے 2014 میں اپنی کم تنخواہ والی نوکری چھوڑنے اور اپنا کلینک شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔ لیکن یمن کے قانون کے تحت انھیں اس کے لیے ایک مقامی شراکت دار کا رکھنا ضروری تھا۔

ٹونی تھامس شادی کی البم کے ساتھ
،تصویر کا کیپشنٹونی تھامس شادی کی البم کے ساتھ

کلینک کھولنے کا فیصلہ

مقامی شراکت دار کی شرط کو پورا کرنے کے دوران مہدی نامی شخص ان کی زندگی میں چلا آتا ہے۔ وہ قریب ہی ایک کپڑے کی دکان چلاتے تھے اور ان کی بیوی نے اس کلینک میں بچے کو جنم دیا تھا جہاں نمیشا کام کرتی تھیں۔

جنوری 2015 میں جب نمیشا اپنی بیٹی کے بپتسمہ کے لیے انڈیا آئیں تو مہدی بھی ان کے ساتھ چھٹی منانے کے لیے انڈیا آئے۔

نمیشا اور ان کے شوہر نے دوستوں اور خاندان والوں سے پیسے ادھار لیے اور انھوں نے مل کر 50 لاکھ روپے یعنی کوئی 60 ہزار امریکی ڈالر اکٹھے کیے اور ایک ماہ بعد نمیشا اپنا کلینک شروع کرنے کے لیے یمن واپس ہو گئیں۔

انھوں نے کاغذی کارروائی شروع کر دی تاکہ ان کے شوہر اور بیٹی یمن میں ان کے ساتھ رہ سکیں لیکن مارچ میں وہاں خانہ جنگی شروع ہو گئی اور وہ سفر نہ کر سکے۔

اگلے دو مہینوں میں انڈیا نے یمن سے 4,600 شہریوں اور تقریباً 1,000 غیر ملکیوں کو نکالا۔

نمیشا ان چند سو افراد میں شامل تھیں جنھوں نے یمن نہیں چھوڑا۔ ٹونی تھامس کا کہنا ہے کہ ’ہم نے کلینک میں اتنا پیسہ لگا دیا تھا کہ اسے چھوڑ کر وہ (نمیشا) واپس نہیں جا سکتی تھیں۔‘

انھوں نے اپنے فون پر مجھے 14 بستروں والے کلینک کی تصاویر دکھائیں۔ تصویر میں الامان میڈیکل کلینک کا سائن بورڈ، استقبالیہ کے حصے میں نئی نیلی کرسیاں، سفید کوٹ میں ایک آدمی بالکل نئے لیب کے آلات کے ساتھ پوز کر رہا ہے، ویٹنگ روم میں دیوار پر سونی کا ایک نیا ٹی وی لگا ہوا تھا اور مہدی فارمیسی میں بیٹھا تھا۔

ٹونی تھامس کا کہنا ہے کہ کلینک نے جلد ہی اچھا کام کرنا شروع کر دیا لیکن نمیشا کو مہدی کے رویے سے شکایات رہنے لگیں۔

دہلی ہائی کورٹ میں دائر پٹیشن کے مطابق مہدی نے ’نمیشا کی شادی کی تصویر اس وقت چرائیں جب وہ ان کے ساتھ ان کے گھر کوچی گئے تھے اور بعد میں ان میں ایڈیٹنگ کرکے یہ دعویٰ کیا کہ اس کی نمیشا سے شادی ہوئی ہے۔‘

پیٹیشن میں کہا گیا ہے کہ ’مہدی نے انھیں (نمیشا) جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا اور کلینک سے تمام آمدنی بھی ہتھیانا شروع کی۔ ان کے ‘تعلقات اس وقت بگڑ گئے جب نمیشا نے ان (مہدی) سے فنڈز کے غبن کے بارے میں سوال کیا۔‘

’کئی بار مہدی نے انھیں جان سے مارنے کی دھکمی دی۔ اور انھیں روکنے کے لیے ان کا پاسپورٹ ضبط کر لیا۔‘

جب نمیشا نے پولیس سے شکایت کی تو ان کے خلاف کوئی کارروائی کرنے کے بجائے پولیس نے انھیں (نمیشا کو) چھ دنوں کے لیے قید کر دیا۔‘

ٹونی تھامس کا گھر
،تصویر کا کیپشنٹونی تھامس کا گھر

قتل اور گرفتاری

ڈیوڈ تھامس کو اس قتل کے بارے میں پہلی بار سنہ 2017 میں ٹی وی نیوز چینلز کے ذریعے معلوم ہوا۔

وہ کہتے ہیں کہ ٹی وی پر شہ سرخی کچھ اس طرح تھی ’ملیالی (کیرالہ) نرس نمیشا پریا کو یمن میں شوہر کے قتل، اس کی لاش کے ٹکڑے کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔‘

نمیشا کو مہدی کی کٹی ہوئی لاش کے پانی کے ٹینک سے ملنے کے ایک ماہ سے زیادہ عرصے کے بعد سعودی عرب کے ساتھ یمن کی سرحد کے قریب سے گرفتار کیا گیا تھا۔

وہ اپنی شادی کا البم دکھاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’وہ آدمی نمشیا کا شوہر کیسے ہو سکتا ہے جب اس نے مجھ سے شادی کی تھی۔‘

ڈیوڈ تھامس کا کہنا ہے کہ گرفتاری کے چند دن بعد جب نمیشا نے انھیں جیل سے فون کیا تو وہ دونوں رو پڑے۔

’اس نے کہا کہ اس نے یہ سب کچھ میرے اور ہمارے بچے کے لیے کیا ہے۔ وہ آسان راستہ اختیار کر سکتی تھی اور مہدی کے ساتھ رہ سکتی تھی، لیکن وہ ایسا نہیں کرنا چاہتی تھی۔ اس کے بعد اس کے لیے میری محبت اور پیار مزید بڑھ گیا ہے۔‘

سماجی کارکن اور سپریم کورٹ کے وکیل کے آر سبھاش چندرن دہلی ہائی کورٹ میں نمیشا کی ماں اور کونسل کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’نمیشا کا درحقیقت مہدی کو قتل کرنے کا ارادہ نہیں تھا۔‘

ان کے مطابق ’مہدی نے نمشیا کا پاسپورٹ ضبط کر لیا تھا اور وہ اسے واپس لینے کی کوشش کر رہی تھیں۔ اس لیے انھوں نے مہدی کوبے ہوشی کی دوا دی مگر اس کی مقدار ذیادہ ہو گئی جس سے وہ مر گیا۔‘

خلیجی ممالک میں نیم ہنر مند اور غیر ہنر مند انڈینز کے استحصال کو دستاویزی شکل دی گئی ہے۔ کارکنوں کا کہنا ہے کہ خطے کے بہت سے ممالک کفالہ پر عمل کرتے ہیں اور اس کے تحت آجر کارکن کا پاسپورٹ اور دستاویزات اپنے پاس رکھتا ہے۔

بین الاقوامی لیبر آرگنائزیشن کا کہنا ہے کہ یہ ایک طرح سے غلامی کی ایک شکل ہے اور تارکین وطن کو ہر طرح کی زیادتی کے سامنے بے بس بناتا ہے۔

سبھاش چندرن کا کہنا ہے کہ کفالہ کی زیادہ تر متاثرین انڈین خواتین ہیں جو غربت سے بچنے کے لیے گھریلو ملازمین کے طور پر کام کرنے کے لیے مشرق وسطیٰ جاتی ہیں۔

یمن

،تصویر کا ذریعہEPA

،تصویر کا کیپشنیمن ایک عرصے سے خانہ جنگی کا شکار ہے

خوں بہا واحد آپشن

سبھاش چندرن اب دوبارہ مقدمے کی سماعت کا مطالبہ کر رہے ہیں تاکہ نمیشا کو اپنے دفاع کا موقع ملے۔

ان کا کہنا ہے کہ نمیشا کو ’مناسب قانونی ٹرائل نہیں ملا۔ عدالت نے اس کی نمائندگی کے لیے ایک جونیئر وکیل مقرر کیا لیکن وہ اس سے بات نہیں کر سکیں کیونکہ وہ عربی زبان سے زیادہ واقف نہیں تھیں اور انھیں مترجم نہیں دیا گیا تھا اور نہ ہی انھیں اس بات کا کوئی علم تھا کہ ان دستاویزات میں ایسا کیا ہے جن پر وہ دستخط کر رہی ہیں۔‘

یمنی حکام نے دہلی میں اس معاملے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔

سیو نمیشا کونسل کی وائس چیئرپرسن دیپا جوزف کہتی ہیں کہ نمیشا کو بچانے کے لیے انڈین حکومت کا تعاون کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’واحد طریقہ یہ ہے کہ مہدی کے خاندان سے معافی مانگی جائے اور ان کے ساتھ خون بہا کی رقم کی بات چیت کی جائے۔‘

کیرالہ کے ایک معروف بزنس ٹائیکون نے پہلے ہی اس مقصد کے لیے 10 ملین روپے یعنی ایک لاکھ 12 ہزار امریکی ڈالر دینے کا وعدہ کیا ہے اور کونسل کو یقین ہے کہ کیرالہ کے رہائشی اور بیرون ملک رہنے والے لوگ اس رقم میں آنے والی کسی بھی کمی کو پورا کرنے کے لیے اپنا حصہ ڈالیں گے۔

دیبا جوزف کہتی ہیں ’مجھے پوری امید ہے کہ نمیشا کو بچایا جا سکتا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ متاثرہ کا خاندان خون بہا (دیت) کی رقم کو قبول کر لے گا۔ ہو سکتا ہے کہ انھوں نے سنگین جرم کیا ہو لیکن میں انھیں ان کی ماں اور ان کی بیٹی کے لیے بچانا چاہتی ہوں۔‘

پریما کماری یمن کا سفر کرنے اور مہدی کے خاندان والوں سے اس متعلق بات چیت کرنے کی امید کر رہی ہیں۔

جب ٹونی تھامس نے یمن کی سپریم کونسل کی اپیل مسترد ہونے سے چند دن پہلے اپنی اہلیہ سے بات کی تھی تو نمیشا پر امید لگیں۔ انھوں نے ’حوصلہ بحال رکھنے اور دعا کرنے‘ کے لیے کہا۔

لیکن جب انھوں نے عدالتی فیصلے کے بعد نمیشا سے بات کی تو وہ ’اداس‘ لگ رہی تھیں۔

’میں نے انھیں یہ کہہ کر تسلی دینے کی کوشش کی کہ ان کی جان بچانے کی کوششیں کی جا رہی ہے، لیکن نمیشا کو یقین نہیں آیا۔ انھوں نے مجھ سے پوچھا کہ میں کیسے پر امید رہ سکتی ہوں۔‘

Source link

Facebook
Twitter
LinkedIn
Pinterest
Pocket
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

Related News

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *