جب 24 ہزار فٹ کی بلندی پر طیارے کی چھت ٹوٹ گئی اور ایئر ہوسٹس ہوا میں اڑ گئی –

Facebook
Twitter
LinkedIn
Pinterest
Pocket
WhatsApp
جب 24 ہزار فٹ کی بلندی پر طیارے کی چھت ٹوٹ گئی اور ایئر ہوسٹس ہوا میں اڑ گئی –

،تصویر کا ذریعہNTSB

’آلوہا۔۔۔‘ یہ لفظ ہوائی زبان میں لوگوں کو سلام کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ لفظ لوگوں کو ’خوش آمدید‘ کہنے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے مگر 1988 میں الوہا ایئر لائنز کی پرواز 243 کے مسافروں اور عملے نے ایک ایسا خوفناک تجربہ کیا جس نے نہ صرف ان کی زندگی پر گہرے اثرات چھوڑے بلکہ فضائی سفر کے حفاظتی معیار، جہازوں کی دیکھ بھال کے معیار کو بھی ہمیشہ کے لیے بدل کر رکھ دیا۔

28 اپریل 1988 کی ایک سہ پہر الوہا ائیرلائنز کا ایک مسافر بردار طیارہ 96 مسافروں اور فضائی عملے کے ساتھ ہوائی کے دو جزیروں کے درمیان ایک مختصر پرواز پر 24 ہزار فٹ کی بلندی پر تھا کہ اچانک سفر کے دوران جہاز کے ایک حصے کی چھت ٹوٹ کر الگ ہو گئی اور اسی دوران اس وقت جہاز میں ڈرنکس پیش کرتی فضائی میزبان مسافروں کی آنکھوں کے سامنے ہوا میں اڑ کر جہاز سے نیچے گر گئی۔

24 ہزار فٹ بلندی پر اس وقت مسافروں کی زندگی اور موت کے درمیان صرف سیٹ بیلٹ تھی اور نیچے بحر الکاہل تھا۔ اس سے پہلے کہ مزید جانی نقصان ہوتا جہاز کے پائلٹ نے معجزانہ ہنگامی لینڈنگ کو انجام دیتے ہوئے جہاز کو زمین پر اتار لیا۔

اس واقعے نے ہوائی جہاز کی تیاری، جانچ اور آپریشن کی دنیا میں بہت سی تبدیلیاں کیں اور ہوائی سفر کو پہلے سے کہیں زیادہ محفوظ بنا دیا۔

اوپر چھت نہیں اور نیچے سمندر

جہاز

28 اپریل 1988 کو الوہا ایئر لائنز کے بوئنگ 737 نے ہوائی کے ایئرپورٹ سے ہونولولو بین الاقوامی ہوائی اڈے کے لیے دوپہر 1:25 اڑان بھری تھی۔ کسی بھی قسم کی ہنگامی صورتحال میں جہاز کو ماؤی ایئرپورٹ پر اترنا تھا، جو اس کا ’متبادل ایئرپورٹ‘ تھا۔

دونوں جزیروں کے درمیان یہ تقریباً 35 منٹ کی پرواز تھی جس میں زیادہ تر وقت ٹیک آف اور لینڈنگ میں گزرتا تھا۔ بہت کم وقت کے لیے طیارے کو اپنی مثالی بلندی پر پرواز کرنا تھا۔

اس دن موسم معمول کے مطابق اور خوشگوار تھا۔ کچھ سیاحوں کے لیے یہ ایک نیا اور خوبصورت نظارہ تھا جبکہ ہوائی جزائر میں کاروبار کی غرض سے سفر کرنے والے مسافروں کے لیے یہ معمول کی پرواز تھی۔

طیارے کے چیف پائلٹ کیپٹن رابرٹ شورنسٹیمر کی عمر 44 سال تھی، وہ 11 سال سے کمپنی کے ساتھ تھے اور انھیں کل آٹھ ہزار گھنٹے پرواز کا تجربہ حاصل تھا، جس میں سے چھ ہزار سات سو گھنٹے انھوں نے بوئنگ 737 کو اڑاتے گزارے تھے۔

کاک پٹ میں فرسٹ آفسر میڈلین ٹاپکنز تھیں۔ 37 سالہ ساتھی پائلٹ کو اپنے قریبی حلقے میں ’میمی‘ کے نام سے جانا جاتا تھا۔ انھیں بھی کل آٹھ ہزار گھنٹے پرواز کا تجربہ تھا جس میں سے تین ہزار پانچ سو گھنٹے بوئنگ 737 طیارے اڑاتے گزرے تھے۔

وہ دن معمول کے مطابق اور موسم صاف تھا، اس لیے فرسٹ آفیسر میمی نے ہوائی جہاز کے ٹیک آف اور ہینڈلنگ کی ذمہ داری سنبھالی جبکہ کیپٹن رابرٹ نے ایئر ٹریفک کنٹرولر سے رابطے اور دیگر معمول کے کام سنبھالے۔

پرواز کا وقت بہت کم ہونے کی وجہ سے جیسے ہی طیارہ اپنی مثالی بلندی پر پہنچا فضائی میزبان کلیریبل لانسنگ نے مسافروں کو مشروبات پیش کرنا شروع کر دیے۔

حادثے کے بارے میں یو ایس این ٹی ایس بی (نیشنل ٹرانسپورٹ سیفٹی بورڈ) کی رپورٹ جون 1989 میں منظر عام پر لائی گئی تھی، جس میں اس کی تفصیل دی گئی تھی کہ مذکورہ پرواز کے دوران کیا ہوا تھا۔

آلوہا ائیرلائن

،تصویر کا ذریعہFAA

فضائی میزبان فضا میں اڑنے لگے

ایرو سپیس انجینئر ولیم فلانیگن اور ان کی اہلیہ جوئے اپنی شادی کی 21ویں سالگرہ منانے کے لیے ہوائی جا رہے تھے۔ جوئے کھڑکی کے پاس دوسری قطار میں بیٹھی تھیں۔

58 سالہ فضائی میزبان کلارایبل لانسنگ 37 سال سے ایئر لائن کے ساتھ تھیں۔ وہ اپنے قریبی حلقے میں ’سی بی‘ کے نام سے جانی جاتیں تھیں۔

کلارا اگلی قطار میں مسافروں کو مشروبات پیش کر رہی تھی جبکہ جہاز کی پچھلی طرف دو دیگر ائیر ہوسٹس ڈیوٹی پر تھیں۔ انھوں نے جوئے کو بتایا کہ جہاز جلد ہی لینڈ کرے گا اور وہ آخری بار مشروبات پیش کر رہی ہیں۔

اس دوران جہاز کا اوپری حصہ اچانک دھماکے سے اڑ گیا اور کلارا دیکھتے ہی دیکھتے جہاز سے باہر گر گئیں۔

اس وقت جہاز میں بیٹھے مسافروں کو یقینی موت نظر آنے لگی کیونکہ اوپر کھلا آسمان تھا اور نیچے سمندر، یہ منظر دیکھ کر مسافروں کے اوسان خطا ہو گئے۔ وہ سمجھ نہیں سکے کہ طیارہ ٹوٹ گیا یا کچھ اور ہوا ہے۔

جہاز کی دونوں طرف کی پانچ قطاریں ایک کنورٹیبل کار کی طرح اوپر سے کھلی ہوئی تھیں کیونکہ حادثے کے وقت طیارہ اپنی معمول کی رفتار سے اڑ رہا تھا اور مسافروں کو سمندری طوفان کے باعث چلنے والی تیز ہواؤں کا سامنا تھا۔

طیارے کے کپتان اور فرسٹ آفیسر نے اپنے عقب سے شور اور مسافروں کی چیخنے کی آوازیں سنی اور پیچھے دیکھا تو انھیں کاک پٹ کا دروازہ نظر نہیں آیا اور عقب سے آسمان نظر آرہا تھا۔ ہوائی جہاز میں موجود آکسیجن ماسک نیچے لٹکنے لگے تھے۔

جہاز

،تصویر کا ذریعہGetty Images

زندگی اور موت کے درمیان لگی ’سیٹ بیلٹ‘

تاہم اس حادثے کے وقت خوش قسمتی سے مسافر اپنی نشستوں پر موجود رہے کیونکہ انھوں نے سیٹ بیلٹس پہنی ہوئی تھیں اور جہاز کے کپتان نے انھیں سیٹ بیلٹس اتارنے کی ہدایت نہیں دی تھی۔ اگرچہ انھیں تیز ہوا کا سامنا تھا لیکن وہ ہوائی جہاز میں تھے۔

ہوائی جہاز کے حصے کی چھت ٹوٹنے سے اس میں موجود تاریں لوہا اور دیگر ملبہ ہوا میں اڑ رہا تھا۔ سامنے والی ٹرے سے ٹکرانے سے کچھ مسافروں کے چہرے اور سر پر چوٹیں آئیں تھیں۔

یہ پتلی سی سیٹ بیلٹ مسافروں کی زندگی اور موت کے درمیان ایک محافظ کے طور پر کھڑی تھی۔ ایک ایئر ہوسٹس کے سر میں شدید چوٹ لگی تھی جبکہ تیسرا فضائی میزبان مسافروں کو اپنی سیٹ بیلٹ باندھنے اور صبر کرنے کی ہدایت کر رہا تھا۔

آکسیجن ماسک لٹک رہے تھے لیکن آکسیجن کی سپلائی نہیں تھی۔ اس بلندی پر مسافروں کو شدید سردی لگ رہی تھی اور بغیر آکسیجن کے وہ موت کے قریب جا رہے تھے۔

وہ کاک پٹ میں پائلٹ کی پوزیشن نہیں دیکھ سکے اور طیارہ آہستہ آہستہ نیچے اتر رہا تھا۔ ان کا خیال تھا کہ پائلٹ کو کچھ ہو گیا ہے یا وہ حالات پر قابو کھو بیٹھے ہیں اور طیارہ سمندر میں گرنے والا ہے۔

اچانک طیارہ فضا میں اس بلندی پر آ کر مستحکم ہو گیا جہاں مسافروں کے لیے سانس لینا ممکن تھا۔ طیارہ کنٹرول میں آیا اور اس نے مڑنا شروع کر دیا۔ جس کے بعد مسافروں کو یقین ہوا کہ پائلٹ نے جہاز کا کنٹرول نہیں کھویا۔

یہ بھی پڑھیے

جہاز کے ہیرو اور ہیروئن

اس دوران جہاز کے پائلٹ رابرٹ اور فرسٹ آفیسر میمی کو ایک الگ قسم کی پریشانی کا سامنا تھا اور وہ یہ کہ طیارے میں ہوا اتنی تیز تھی کہ وہ ایک دوسرے کی گفتگو نہیں سن سکتے تھے۔

چنانچہ کیپٹن اور فرسٹ آفیسر نے کاک پٹ میں ایک دوسرے سے اشاروں میں بات کی اور کیپٹن رابرٹ نے ہوائی جہاز کا کنٹرول سنبھالا جبکہ میمی نے مواصلات اور دیگر امور انجام دیے۔ خوش قسمتی سے ان کے ماسک میں آکسیجن کی سپلائی جاری تھی۔

طیارے کے پائلٹ کی جانب سے ہونولولو ہوائی اڈے پر ایک سگنل بھیجا گیا کہ طیارہ ہنگامی صورتحال میں ہے لیکن پیغام ان تک نہیں پہنچا۔ دونوں نے ماؤی ایئرپورٹ پر اترنے کا فیصلہ کیا انھوں نے وہاں کے ایئر ٹریفک کنٹرولر سے رابطہ کیا اور اترنے کی اجازت طلب کی۔

اونچائی اور رفتار میں کمی کے ساتھ اب رابرٹ اور میمی ایک دوسرے کے ساتھ بہتر بات چیت اور رابطہ کرنے کے قابل تھے۔

افراتفری، ہنگامے اور بے ترتیب مواصلات کے درمیان اے ٹی سی کو بمشکل پیغام پہنچا۔ طیارے کو مجبوراً رن وے نمبر دو پر لینڈ کرنا پڑا۔ فائر فائٹرز کو فوری طور پر ممکنہ تباہی سے آگاہ کر دیا گیا۔ جب مسافروں اور عملے کے ارکان سے انٹرکام یا پبلک اناؤنسمنٹ سسٹم کے ذریعے رابطہ نہ ہوسکا تو کو پائلٹ نے ایک بار پھر اے ٹی سی سے رابطہ کیا اور انھیں ’جتنا ممکن ہو مدد کرنے‘ کی ہدایت کی۔

چونکہ ہوائی اڈے پر کوئی ایمبولینس یا طبی خدمات دستیاب نہیں تھیں، اے ٹی سی نے صورتحال کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے کمیونٹی سروسز کو فوری طور پر پہنچنے کی اطلاع دی۔

تیز ہواؤں کے ساتھ اور تین ہزار میٹر کے دو پہاڑوں کے درمیان طیارے کو رن وے پر اتارنے کا چیلنج تھا۔ کسی بھی غلطی پر سنگین نتائج کے لیے نیچے ایک سمندر تھا۔

لینڈنگ کے وقت ہوائی جہاز کی رفتار، ہوا، ہوائی جہاز کا وزن، ایندھن، کارگو کا وزن، مسافروں کی تعداد وغیرہ پر منحصر ہے۔

ساتھی پائلٹ میمی نے پائلٹ رابرٹ کو تیز ہواؤں کے درمیان ہوائی جہاز کی رفتار، پیچیدہ ٹرم سے لے کر لینڈنگ کے وقت تک کے مینوئل کی وضاحت کی۔

جہاز

،تصویر کا ذریعہGetty Images

محفوظ لینڈنگ

جیسے ہی پائلٹ کو رن وے نظر آنے لگا پائلٹ نے فوراً سامنے کے لینڈنگ گیئرز کو نیچے کرنے کے لیے بٹن دبائے۔ پائلٹ نے دیکھا کہ بائیں اور دائیں طرف کے پہیے کھل گئے تھے لیکن اگلا پہیہ نہیں کھلا تھا۔

عام حالات میں ایسا ہونے پر ہوائی جہاز ائیر ٹریفک کنٹرول کے گرد چکر لگاتا ہے اور نیچے موجود ایئر ٹریفک کنٹرول جہاز کے لینڈنگ گیئرز کا مشاہدہ کرتے ہیں اور پائلٹ کو آگاہ کرتے ہیں کہ آیا اگلے پہیے کھلے ہیں یا نہیں لیکن اس پرواز کے لیے ایسا کرنا ممکن نہیں تھا۔

ان حالات میں اگر طیارہ گر گیا تو اس کا اگلا حصہ زمین سے ٹکرانے کا خدشہ تھا اور اس کی وجہ سے طیارے میں آگ لگنے کا خدشہ تھا۔

پائلٹ، فلائٹ اٹینڈنٹ، مسافر، اے ٹی سی عملہ، فائر فائٹرز اور ایئرپورٹ پر موجود لوگوں کی جانیں جانے کا خطرہ تھا مگر کیونکہ جہاز کا کمیونیکشن کا نظام درہم برہم ہو چکا تھا اس لیے پائلٹ کو اگلے پہیے کھلنے کا کوئی اشارہ نہ ملنے کے باوجود اگلا پہیہ کھل چکا تھا۔

اس دوران جہاز کافی حد تک نیچے آ چکا تھا اور ہوائی اڈے پر ہوا کا دباؤ بھی مستحکم تھا۔

میمی اور رابرٹ نے طیارے کو کامیابی سے اتارا۔ جیسے ہی وہ اترے، مسافروں اور اے ٹی سی نے انھیں گھیر لیا اور مبارکباد دی۔

اس حادثے میں آٹھ مسافر شدید اور 57 معمولی زخمی ہوئے جبکہ 29 مسافر محفوظ رہے تھے۔

کلارابیل کی لاش کبھی نہ مل سکی

اپنی زندگی کا زیادہ تر حصہ ہوائی کے جزائر اور سمندر کے درمیان گزارنے والی کلارا بیل لینسنگ اس حادثے میں بحر الکاہل میں کہیں ڈوب گئی تھیں۔

امریکی کوسٹ گارڈ، ہیلی کاپٹروں اور دیگر طیاروں نے انھیں تلاش کرنے کی کوشش کی لیکن ان کی لاش کبھی نہیں ملی۔ ایئرپورٹ پر ان کی یاد میں ایک باغ بنایا گیا۔

جہاز کے ٹوٹے ہوئے حصے کی عدم بازیابی کی وجہ سے حادثے کی وجوہات کی کوئی حتمی وجہ نہیں بتائی جا سکی تھی لیکن حالاتی شواہد اور معلومات سے حادثے کی وجہ جاننے کی کوشش کی گئی۔

باغ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشنایئرپورٹ پر کلارا بیل لینسنگ کی یاد میں ایک باغ بنایا گیا

جہاز کے ٹوٹنے کی کیا وجہ سامنے آئی

اس حادثے کے بعد 50 لاکھ ڈالر کا ہوائی جہاز ناقابل مرمت ہو گیا تھا اور اسے سکریپ میں فروخت کر دیا گیا تھا۔ یہ طیارہ 1969 میں خریدا گیا تھا۔ یہ بوئنگ کی طرف سے تیار کردہ 737 سیریز کا 152 واں طیارہ تھا۔

اس حادثے کی تحقیقاتی میں کہا گیا ہے جہاز پرانا تھا اور ہوائی جزائر کے درمیان بہت زیادہ سفر کرنے کے وجہ سے بار بار ٹیک آف اور لینڈنگ نے اس کے بیرونی حصے پر دباؤ ڈالا تھا اور جس کے باعث ان حصوں کو جوڑ کر رکھنے والی خصوصی پیچ (ریوٹس) ڈھیلے ہو چکے تھے۔ حادثے کے دن بھی طیارے کے تین چکر طے تھے۔

طیارے نے 35 ہزار 500 گھنٹے پرواز کی اور 89 ہزار 680 فلائٹ سائیکل مکمل کیے۔ یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ جہاز کی بیرونی حصے بہت زیادہ دباؤ کا شکار تھے۔

ہوائی کی مرطوب اور نمکیات والی آب و ہوا کی وجہ سے جہاز کے بیرونی حصوں پر لگے ریوٹس کے گرد باریک باریک دراڑیں پڑ گئیں تھیں لیکن چونکہ جہاز دیکھ بھال اور مرمت کا کام زیادہ تر رات کو یا صبح سویرے مصنوعی روشنی میں کیا جاتا تھا، اس لیے یہ دراڑیں قابل توجہ نہیں تھیں۔ اس کے علاوہ جہاز کے حصوں کو آپس میں جوڑنے والی خاص سیل بھی ختم ہو چکی تھی۔

جس طرح ایک کار کے لیے وقتاً فوقتاً ’بمپر سے بمپر‘ تک جانچ کی ضرورت ہوتی ہے، اسی طرح ایک ہوائی جہاز کو بھی وقتاً فوقتاً ’اوپر سے نیچے تک‘ مکمل جانچ کی ضرورت ہوتی ہے لیکن مسلسل اور باقاعدہ پروازوں کی وجہ سے، الوہا ایئرلائن کے بوئنگ 737 کے صرف اہم حصوں کی وقتاً فوقتاً جانچ کی جاتی اور پوری ساخت کا مشاہدہ نہیں کیا گیا تھا۔

اس حادثے کے بعد امریکی فیڈرل ایوی ایشن ایڈمنسٹریشن نے نیو جرسی میں پرانے ہوائی جہازوں کے معائنے اور ہوائی جہاز کے ڈھانچے کی جانچ کے لیے ایک نئی ورکشاپ قائم کی۔ جس میں زنگ لگنے، ہوائی جہاز کے استعمال وغیرہ کی جانچ کی جاتی ہے، جس کی وجہ سے نہ صرف امریکہ بلکہ دنیا کی فضائی کمپنیاں محفوظ تر ہو گئی ہیں۔

سنہ 2008 میں عالمی کساد بازاری کی زد میں آنے سے پہلے، الوہا ایئر لائن نے مارچ میں دیوالیہ ہونے کے لیے درخواست دائر کی اور مسافروں کو ہمیشہ کے لیے خدا حافظ کہہ دیا۔

Source link

Facebook
Twitter
LinkedIn
Pinterest
Pocket
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

Related News

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *