حماس اور اسرائیل کے درمیان آج چار روزہ جنگ بندی کا تیسرا دن تھا۔ آج کے دن جہاں حماس نے اسرائیل سے 7 اکتوبر کو یرغمال بنائے جانے والے شہریوں کو رہا کیا وہیں اسرائیل نے بھی درجنوں فلسطینی قیدیوں کو رہا کیا ہے۔
اتوار کو حماس نے 14 یرغمالیوں کو رہا کیا جن میں سے 11 اسرائیل کے شہری اور تین افراد کا تعلق دیگر ممالک سے ہے۔ اسرائیل نے حماس کے اس اقدام کے جواب میں 39 فلسطینی قیدیوں کی رہائی کی تصدیق کی ہے۔
گذشتہ روز میں 13 یرغمال بنائے گئے اسرائیلی شہریوں کی رہائی کے بدلے اسرائیل نے 39 فلسطینیوں کو اپنی قید سے رہائی دی تھی۔ جمعے کو حماس نے جو 24 یرغمالی رہا کیے ان میں سے اسرائیل کے 13، تھائی لینڈ کے 10 اور فلپائن کے ایک شہری شامل تھے۔ اسرائیل نے جمعے کے دن بھی 39 فلسطینیوں کو رہا کیا۔
حماس نے جنگ بندی کے اعلان کے بعد اب تک کل 54 یرغمالیوں کو رہا کیا جبکہ اسرائیل نے 117 فلسطینیوں کو اپنی جیلوں سے رہائی دی۔
خیال رہے کہ اکتوبر میں حماس نے دو امریکی اور دو اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کیا تھا۔ ایک اسرائیلی فوجی جو غزہ میں لڑتے ہوئے قید کر دیے گئے تھے کو بھی حماس نے رہا کر دیا تھا۔
حماس نے کا کہنا ہے کہ وہ جنگ بندی کے اس دورانیے میں اضافہ دیکھنا چاہتے ہیں تا کہ مزید یرغمال شہریوں کی بھی رہائی عمل میں لائی جا سکے۔ موجودہ جنگ بندی کے معاہدے کا آخری دن پیر بنتا ہے۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے بھی اپنے ایک بیان میں اس امید کا اظہار کیا ہے کہ حماس کی قید میں مزید امریکی شہریوں کو بھی جلد رہا کیا جائے گا۔ انھوں نے کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ حماس کی قید سے تمام یرغمال بنائے گئے شہری آزاد ہو جائیں اور غزہ کے کسی کونے پر بھی حماس کی حکومت قائم نہ رہے۔
غزہ میں امداد کی فراہمی پر اتفاق
واضح رہے کہ قطر نے اسرائیل اور حماس کے درمیان معاہدے میں ثالثی کی ہے۔ اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ میں چار روزہ وقفے کے دوران یرغمالیوں کے تبادلے کا آغاز کیا گیا تھا۔
جمعے کی صبح سے شروع ہونے والے اس عارضی جنگ بندی کے دوران حماس کے پاس موجود 50 اسرائیلی یرغمالیوں اور اسرائیل کی جیلوں میں قید 150 فلسطینیوں کی رہائی کے علاوہ غزہ میں امداد کی فراہمی پر اتفاق کیا گیا تھا۔
اسرائیل نے حماس کو مزید یرغمالیوں کی رہائی کی ترغیب دیتے ہوئے جنگ بندی کی مدت میں اضافے کی پیشکش بھی کی ہے۔
یہ سات اکتوبر سے شروع ہونے والی لڑائی میں پہلا وقفہ ہے تاہم اسرائیل نے واضح کیا ہے کہ یہ وقفہ جنگ کا خاتمہ نہیں۔
اسرائیلی فوج کے ترجمان نے جمعے کی صبح ایک بیان میں کہا ہے کہ ’انسانی ہمدردری کے تحت یہ وقفہ عارضی ہے‘۔
انھوں نے غزہ کے شہریوں کو مخاطب کر کے کہا کہہ ’شمالی غزہ ایک خطرناک علاقہ ہے اور شمال کی جانب سفر کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ اپنے تحفظ کے لیے جنوب میں ہی رہیں۔‘
اسرائیلی حکومت نے حماس کا نام و نشان مٹانے کا عزم ظاہر کیا ہے اور تمام یرغمالیوں کی رہائی کی امید ظاہر کی ہے۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا ہے کہ یہ معاہدہ غزہ میں موجود اسرائیلی یرغمالیوں کی ’ناقابل بیان آزمائش‘ کا خاتمہ کرے گا اور ’معصوم فلسطینی خاندانوں کے مصائب کو کم کرے گا۔‘
اسرائیلی حکومت متعدد مرتبہ حماس کو ’جڑ سے اکھاڑ پھینکنے‘ اور 200 سے زائد اسرائیلی مغویوں کی واپسی کو اس جنگ کا اہم مقصد بتاتی ہے۔
حماس، جسے اسرائیل، امریکہ اور دیگر مغربی ممالک دہشت گرد تنظیم قرار دیتی ہیں، نے کہا ہے کہ اس معاہدے سے فلسطینیوں کو شدید اسرائیلی فضائی اور زمینی حملوں کے بعد بحالی کا وقت ملے گا۔ غزہ کی وزارت صحت کے مطابق ان اسرائیلی حملوں میں 14,000 سے زیادہ فلسطینی مارے گئے ہیں۔
جمعے کی صبح عارضی جنگ بندی کے آغاز سے چند گھنٹے پہلے تک غزہ پر اسرائیلی حملے جاری تھے اور علاقے سے مسلسل گولہ باری اور فائرنگ کی آوازیں سنی جا سکتی تھیں تاہم مقامی وقت کے مطابق صبح سات بجے لڑائی میں وقفے کی مقررہ مدت کے شروع ہونے کے بعد آہستہ آہستہ خاموشی چھا گئی۔
معاہدے کی نگرانی کا طریقہ کار
قطر کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ دوحہ میں آپریشنز روم براہ راست اسرائیل، حماس کے سیاسی دفتر اور ہلال احمر کے ساتھ رابطے میں رہے گا جس دوران معاہدے میں کسی بھی خلاف ورزی پر ’دونوں فریقین سے فوراً بات چیت ہوگی‘ تاکہ عملدرآمد دوبارہ یقینی بنایا جاسکے۔
ان کا کہنا تھا کہ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ایسا ماحول بنایا جائے تاکہ یرغمالیوں کی منتقلی محفوظ ہو۔
قطر کو امید ہے کہ عارضی وقفہ مزید یرغمالیوں کی رہائی کا سبب بن سکتا ہے تاکہ ’جنگ بندی کے مزید اقدامات کیے جاسکیں۔۔۔ اور غزہ میں مستقل طور پر لڑائی کا خاتمہ ہوسکے۔‘