ویب ڈیسک: (علی زیدی) پاکستان میں گزشتہ کچھ عرصے سے سوشل میڈیا کو “کنٹرول” کرنے اور فیک نیوز سے چھٹکارا پانے کے حوالے سے بات ہورہی ہے۔ اگر کہا جائے کہ سوشل میڈیا اس وقت کئی اہم حلقوں کیلئے دردسر بنا ہوا ہے تو غلط نہ ہوگا۔ تاہم چند روز قبل حکومت کی جانب سے انٹرنیٹ پر فائروال لگانے کے حوالے سے خبر نے حلقوں میں خوف کی لہر دوڑا دی ہے۔
تفصیلات کے مطابق ذرائع نے خبر دی ہے کہ حکومت کی جانب سے فائروال کا ٹیسٹ رن شروع ہوچکا ہے۔ ایک انتہائی طاقت ور فائروال سسٹم دوست ملک کی جانب سے پاکستان کو دیا گیا ہے۔ جس کے بعد شناخت چھپا کر پروپیگنڈا کرنے والے لوگ بےنقاب ہوجائیں گے۔ مزید یہ کہ سوشل میڈیا کے حوالے سے انتہائی سخت قوانین لاگو کیے جارہے ہیں۔ بلکہ کئی حلقوں کا تو کہنا ہے کہ اب کسی بھی شخص کو یوٹیوب پر بات کرنے سے قبل اپنی “ضمانت” کا بندوبست کرنا پڑے گا اور چینل سے بھی ہاتھ دھونے پڑسکیں گے۔
فائروال کیا ہے اور یہ کام کیسے کرتی ہے؟
ایک میڈیا رپورٹ کے مطابق ’ فائروال آن لائن مواد پر مبنی ٹریفک ڈیٹا کو ٹریک کرنے کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ اس سے کسی بھی پیغام کے بارے میں پتا لگا سکتی ہے یعنی پیغام کون سے کمپیوٹر، کون سے آئی پی ایڈریس سے اور کسے بھیجا گیا، اسے ٹریک کیا جا سکتا ہے۔
صرف ٹریک ہی نہیں کیا جا سکتا بلکہ بوقت ضرورت یہ فائروال مطلوبہ معلومات میں، جس کے لیے گائیڈ لائن فراہم کی گئی ہو، اس کو فلٹر کر دیتی ہے۔ جب کوئی ڈیٹا فلٹر ہوتا ہے تو ایسی صورت میں اس فائروال کے ذریعے اسے بلاک کیا جا سکتا ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’اس کے ذریعے لوگوں کو ٹریک کیا جا سکتا ہے اور ان کی نگرانی کی جاتی ہے، جبکہ سوشل میڈیا ایپس، ویب سائٹس کے علاوہ دیگر سائٹس کو بھی بلاک کیا جا سکتا ہے، تاکہ انٹرنیٹ صارفین کو ان پر موجود معلومات تک رسائی ممکن نہ ہو۔
اس کے لیے پہلے متعلقہ سوشل میڈیا کمپنیوں سے رابطہ کر کے مواد ہٹوایا جاتا تھا، اب اس فائروال کی تنصیب سے اسے سوشل میڈیا پر اپ لوڈ ہونے سے پہلے ہی روک دیا جائے گا۔‘
نیشنل فائروال کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی؟
حکومت اور ادارے متعدد بار کہہ چکے ہیں کہ سوشل میڈیا نہ صرف فیک نیوز پھیلانے کا ذریعے ہے، بلکہ ’قومی سلامتی‘ سے متعلق معلومات بھی سوشل میڈیا پر پھیلا دی جاتی ہیں جس سے ملکی سلامتی متاثر ہوتی ہے۔
اس حوالے سے وزیر دفاع خواجہ آصف نے سرکاری دستاویزات سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کرنے والوں کے خلاف کارروائی کا عندیہ بھی دیا تھا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’نیشنل فائروال کی تنصیب سے معلومات تک رسائی، آزادی اظہار اور شخصی پرائیویسی جیسے بنیادی انسانی حقوق متاثر ہوں گے۔ اس فائروال سے ایک عام شہری کی بینک معلومات، ذاتی تنخواہ، صحت سے متعلق تفصیلات یہاں تک کہ ای میل وغیرہ سے لےکر پاسورڈ تک ریاستی اداروں کی دسترس میں آ جائیں گے۔‘
ان کے مطابق ’صرف یہی نہیں بلکہ بحیثیت شہری کسی بھی ایسے پبلک معاملے پر جس میں ٹیکس کا پیسہ خرچ ہوا ہے، کے بارے میں معلومات جاننے اور ان پر تبصرہ کرنے کا ایک شہری کے حق پر بھی قدغن لگ جائے گا۔ اس سے بھی بڑھ کر خدشہ ہے کہ اگر کسی ادارے کو وہ تبصرہ پسند نہ آئے تو اسے اٹھایا بھی جا سکتا ہے۔ جو کہ جمہوریت میں نہیں ہوتا۔‘
ڈیجیٹل نگرانی، قانون کیا کہتا ہے؟
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ عموماً حکومتیں جب بھی کوئی قدم اٹھاتی ہیں تو عدالتوں یا میڈیا میں سوال اٹھایا جاتا ہے کہ وہ یہ کام کس قانون کے تحت کر رہی ہیں۔’پاکستان میں ڈیجیٹل سرویلینس کا قانون موجود ہے جس کے تحت حکومتی ادارے سرویلینس کر سکتے ہیں، لیکن ڈیجیٹل رائٹس کے لیے کام کرنے والے اس قانون کو غیرشفاف قرار دیتے ہیں کیونکہ اس کے ذریعے نگرانی کرنے کا طریقہ کار شفاف نہیں ہے۔ اس قانون کے غلط استعمال کے امکانات بہت زیادہ ہیں اور اس قانون کا سہارا لے کر کسی کو نشانہ بنانے والے سرکاری اداروں کے اہلکاروں کا احتساب ممکن نہیں ہے۔‘
’پاکستان پہلے ہی ایسا ملک ہے جہاں بہت زیادہ قانون سازی ہوتی ہے۔ ہم نے کچھ سال پہلے ایک سروے کروایا تھا تو معلوم ہوا تھا کہ پاکستان میں آزادی اظہار سے متعلق 111 قوانین موجود تھے۔ لیکن یہ قوانین آزادی اظہار کا تحفظ کم جبکہ قدغنیں زیادہ لگاتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ فائروال کی تنصیب کو کسی قانون کے تحت لانے کے لیے تو 1880 کا ٹیلی گرام ایکٹ بھی لاگو کیا جا سکتا ہے اور 2014 میں پاس ہونے والا تحفظ پاکستان ایکٹ بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی درجنوں قوانین ایسے ہیں جن کے تحت یہ اقدام اٹھایا جا سکتا ہے، لیکن کوئی بھی ایسا قانون جو بنیادی انسانی حقوق کو متاثر کرتا ہو وہ خلاف آئین ہوتا ہے۔ اس لیے فائروال کو کسی قانون کے تحت کرنے سے اس کو کوئی جواز نہیں مل جاتا۔‘
Source link