پاکستان کے الیکشن کمیشن نے حتمی حلقہ بندیوں کی تفصیلات جاری کر دی ہیں جن کے مطابق صوبوں کے اندر قومی اور صوبائی اسمبلی کے حلقوں میں معمولی تبدیلیاں لائی گئی ہیں۔
الیکشن کمیشن نے پہلے پانچ اگست 2022 کو حلقہ بندیاں کی تھیں مگر پھر ڈیجیٹل مردم شماری کے نتائج شائع ہونے کی وجہ سے الیکشن کمیشن کو قانون کے مطابق نئے سرے سے حلقہ بندیاں کرنا پڑیں۔
الیکشن کمیشن کے حکام کے مطابق کمیشن نے گذشتہ تین ماہ میں ملک بھر کے حلقوں کا از سر نو جائزہ لیا اور پھر تجاویز اور شکایات کے جائزے کے بعد نئی حلقہ بندیوں کی حتمی فہرست جمعرات 30 نومبر 2023 کو جاری کر دی ہے۔
مگر یہ بات ذہن میں رہے کہ اس پوری سرگرمی میں الیکشن کمیشن کو یہ اختیار حاصل نہیں تھا کہ وہ کسی صوبے کے کوٹے کو کم یا زیادہ کر سکتا کیونکہ ایسا آئینی ترمیم کے ذریعے ہی کیا جا سکتا ہے، جو اب آنے والی پارلیمنٹ ہی کر سکتی ہے۔
آئیے سب سے پہلے نظر ڈالتے ہیں ان تبدیلیوں پر جو الیکشن کمیشن کی جانب سے حلقہ بندیوں میں کی گئی ہیں اور اس ضمن میں 2018 کے الیکشن کے مقابلے میں اس مرتبہ کیا تبدیلیاں لائی گئی ہیں۔
سنہ 2018 اور سنہ 2024 کے مقابلے میں سیٹوں میں فرق کیوں ہے؟
الیکشن کمیشن کی نئی حلقہ بندیوں کے تحت متعارف کروائی گئی کچھ تبدیلیوں کا جائزہ لینے سے قبل یہ سمجھنا ضروری ہے کہ سنہ 2018 کے عام انتخابات اور اب 2024 کے انتخابات میں نشستوں کے اعتبار سے کتنا فرق پڑا ہے۔
انتخابی کمیشن کے مطابق ملک بھر سے قومی اسمبلی کی عام نشستوں کے 266 جبکہ صوبائی اسمبلیوں کی عام نشستوں کے 593 حلقے ہوں گے۔
سنہ 2018 کے عام انتخابات میں قومی اسمبلی کی کل نشستیں 272 تھیں جبکہ صوبائی اسمبلیوں کی کل نشستیں 577 تھیں۔
مخصوص نشستوں اور اقلیتوں کی نشستوں کو ملا کر اب قومی اسمبلی کی مجموعی 342 نشستیں کم ہو کر 336 رہ گئی ہیں۔
اب آتے ہیں عام انتخابات 2018 کے مقابلے میں سنہ 2024 کے عام انتخابات میں کل نشستوں پر فرق پر۔۔۔ جس کی وجہ قبائلی علاقوں کا انضمام ہے۔
سنہ 2018 میں فاٹا کی آزاد حیثیت تھی یعنی یہ قبائلی علاقہ وفاق کے تحت تھا، جہاں سے قومی اسمبلی کی 12 نشستیں تھی۔
25 ویں آئینی ترمیم کے تحت فاٹا کو خیبرپختونخوا میں ضم کر دیا گیا اور پھر اس کی 12 نشستیں کم کر کے چھ کر دی گئیں اور وہ خیبر پختونخوا کے کوٹے میں شامل کر دی گئیں۔
یوں اس صوبے کا قومی اسمبلی کا کوٹہ 39 نشستوں سے بڑھ کر 45 تک پہنچ گیا مگر قومی اسمبلی کی مجموعی نشتیں 342 سے کم ہو کر 336 رہ گئیں۔
مبصرین کے مطابق فاٹا کے عوام کو ریلیف کے طور پر اس سے قبل زیادہ یعنی 12 قومی اسمبلی کی نشستیں دی گئی تھیں حالانکہ یہاں آبادی فارمولے کے مطابق بہت کم تھی۔
نئی حلقہ بندیوں میں باجوڑ، خیبر اور کرم کے دو، دو حلقوں کو کم کر کے ایک ایک حلقہ کر دیا گیا ہے جبکہ اورکزئی اور فرنٹیئر ریجن کے حلقے ختم کر دیے گئے ہیں۔ وزیرستان کے حلقے تین سے کم ہو کر دو رہ گئے ہیں۔
یہ بھی واضح رہے کہ یہ تعداد نئی حلقہ بندیوں کی وجہ سے تبدیل نہیں ہوئی ہے کیونکہ آئینی ترمیم کے بعد الیکشن کمیشن نے نئی حلقہ بندیاں کر دی تھیں جن پر باقاعدہ ضمنی انتخابات بھی ہوئے تھے۔
تازہ حلقہ بندیوں میں یہ ضرور ہوا ہے کہ آبادی کو مدِنظر رکھتے ہوئے الیکشن کمیشن نے کچھ تبدیلیاں ضرور متعارف کروائی ہیں۔
آبادی کو مدِ نظر رکھتے ہوئے سانگھڑ کی نشست کم ہوئی ہے جبکہ کراچی میں ایک نشست کا اضافہ کیا گیا ہے۔
الیکشن ایکٹ 2017 کے تحت حلقہ بندیوں کے لیے ملک کو آبادی اور جغرافیائی لحاظ سے انتخابی حلقہ جات میں تقسیم کیا جاتا ہے نہ کہ ووٹرز کی تعداد کے لحاظ سے جبکہ کسی بھی حلقے میں آبادی کا فرق دس فیصد سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے۔
قومی اسمبلی نے اس قانون کے سیکشن 20 کی ذیلی شق تین میں ایک اضافہ کیا اور الیکشن کمیشن کو بااختیار بنایا کہ وہ آبادی کے تناسب سے حلقہ بندیاں کرے اور ضلعی کوٹے کی پرواہ نہ کرے۔
الیکشن کمیشن کے حکام کے مطابق ووٹرز کی کل تعداد کے بجائے آبادی کے لحاظ سے حلقہ بندی کا مقصد این ایف سی سمیت دیگر وسائل کی تقسیم بھی ہے۔
فری اینڈ فئیر الیکشن نیٹ ورک (فافن) کے تجزیہ کار رشید چوہدری کا کہنا ہے کہ ابھی کم از کم 83 قومی اسمبلی کے حلقے ایسے ہیں، جہاں دیگر حلقوں کے مقابلے میں یا آبادی بہت زیادہ ہے یا بہت کم ہے یعنی آبادی کا فرق دس فیصد سے زیادہ بنتا ہے۔
ان کی رائے میں ان حلقوں میں الیکشن کمیشن نے آبادی کے بجائے ضلعوں کا خیال رکھا ہے۔
رشید چوہدری کے مطابق انھوں نے تجاویز میں یہ بھی الیکشن کمیشن کو بتایا تھا کہ ’صوبائی اسمبلیوں کے 97 ایسے حلقے ہیں جہاں دس فیصد سے زیادہ کا فرق بتنا ہے مگر الیکشن کمیشن نے ان حلقوں کو بھی نہیں چھیڑا ہے۔‘
الیکشن کمیشن کے سینیئر حکام نے بی بی سی کو بتایا کہ ’جہاں تک ممکن تھا شکایات اور تجاویز پر عمل کیا گیا ہے۔‘
ان حکام کے مطابق ’الیکشن کمیشن ایک فارمولے کے ذریعے حلقہ بندیاں کرتا ہے، جس کے تحت آبادی کے معمولی فرق کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔
’کمیشن کے مطابق یہ ممکن نہیں ہے کہ کسی حلقے میں آبادی کا بہت زیادہ فرق ہو اور وہاں نشست کی حلقہ بندی نہ کی گئی ہو۔‘
حکام کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’حلقہ بندیوں میں حلقے بنانا اتنا مسئلہ نہیں ہوتا مگر یہ بھی دیکھنا ہوتا ہے کہ صوبے کو جتنی نشستیں ملی ہوئی ہیں ان کے اندر ہی یہ ساری تقسیم ممکن بنائی جاتی ہے کیونکہ کمیشن کوٹے سے تجاوز نہیں کر سکتا اور آئینی ترمیم کے بغیر نشستیں بڑھانے کا بھی مجاز نہیں ہے۔‘
الیکشن کمیشن کے سابق سیکریٹری کنور دلشاد اس بات سے متفق ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’اب یہ نئی حکومت کا کام ہے کہ وہ اتفاق رائے پیدا کرتے ہوئے آئینی ترمیم کرائے اور پھر قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں میں اضافہ کرتے ہوئے عوامی نمائندگی کو بڑھائے۔‘
’مری کا حلقہ راولپنڈی کے حلقے کے ساتھ ضم‘: ضلعوں میں حلقوں کی تقسیم کس طرح کی گئی ہے؟
الیکشن کمیشن نے آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں مظفر گڑھ کے قومی اسمبلی کے حلقے چھ سے کم کر کے چار کر دیے ہیں جبکہ ڈیرہ غازی خان کے حلقے چار سے کم کر کے تین کر دیے ہیں۔
اسی طرح وزیر آباد کو ایک علیحدہ نشست دے دی گئی ہے۔
گوجرانوالہ کے حلقے چھ سے کم ہو کر پانچ رہ گئے ہیں جبکہ مری کا حلقہ راولپنڈی کے ایک حلقے کے ساتھ ضم کر دیا گیا ہے۔
الیکشن کمیشن کے حکام نے بی بی سی کو تفصیلات بتاتے ہوئے وضاحت کی کہ ’مری کی کل آبادی تین لاکھ سے کچھ زیادہ بنتی ہے جبکہ ایک حلقے کے لیے کم از کم آٹھ لاکھ آبادی کا ہونا ضروری ہے۔‘
کمیشن کے اہلکار کے مطابق ’یہاں صرف اس حلقے کو بڑھا دیا گیا ہے یا یوں کہا جا سکتا ہے کہ راولپنڈی کے حلقے کے ساتھ ضم کر دیا گیا ہے۔
ان کے مطابق ’اب صرف ضلع کی بنیاد پر نشست نہیں دی جا سکتی ہے۔ اس حلقہ بندی سے حلقے کے نقشے پر زیادہ فرق نہیں پڑا ہے اور اسے ’راولپنڈی-کم-مری‘ کا حلقہ ہی کہا جائے گا۔‘
سندھ میں کراچی کی قومی اسمبلی کی ایک نشست میں اضافہ کیا گیا ہے جبکہ سانگھڑ کی قومی اسمبلی کی نشست ختم کر دی گئی ہے۔
یوں سانگھڑ کے حلقے تین سے کم ہو کر دو رہ گئے ہیں۔ جبکہ کراچی ساؤتھ کے حلقے دو سے بڑھ کر تین اور کراچی ویسٹ کے پانچ سے کم ہو کر تین رہ گئے ہیں۔
بلوچستان میں کوئی بڑی تبدیلی عمل میں نہیں لائی گئی ہے۔ آئندہ عام انتخابات کے لیے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی تین جنرل نشستیں ہوں گی۔
قومی اسمبلی میں خواتین کی مخصوص نشستیں 60 ہوں گی جبکہ اقلیتوں کے لیے دس نشستیں مختص کی گئی ہیں۔
آبادی کے لحاظ سے ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں قومی اسمبلی کی 141 جبکہ صوبائی اسمبلی کی 297 جنرل نشستیں ہوں گی۔
پنجاب سے قومی اسمبلی میں خواتین کی 32 مخصوص نشستیں ہوں گی۔
صوبہ سندھ میں قومی اسمبلی کی 61 جبکہ صوبائی اسمبلی کی 130 جنرل نشستیں ہوں گی۔ سندھ سےخواتین کی 14 مخصوص نشستیں ہوں گی۔
صوبہ خیبر پختونخوا میں قومی اسمبلی کی 45 اور صوبائی اسمبلی کی 115 جنرل نشستیں ہوں گی۔ خیبرپختونخوا سے خواتین کی دس مخصوص نشستیں ہوں گی۔
بلوچستان میں قومی اسمبلی کی 16، صوبائی اسمبلی کی 51 عام نشستیں اور خواتین کی چار مخصوص نشستیں ہوں گی۔
’شکایات اور تجاویز پر الیکشن کمیشن نے 20 سے 25 فیصد تبدیلیاں کی ہیں‘
الیکشن کمیشن کے حکام نے بی بی سی کو بتایا کہ ’اسے گذشتہ تین ماہ کے دوران کی جانے والی حد بندی پر 1336 شکایات اور تجاویز موصول ہوئیں، جن میں سے 20 سے 25 فیصد تک پر عمل کرتے ہوئے کچھ جگہوں پر قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی حد بندی میں تبدیلیاں بھی کی ہیں۔‘
حکام کے مطابق ’ایک ماہ تک عوامی شکایات اور تجاویز پر غور کیا گیا اور پھر اس کے بعد حتمی حلقہ بندیوں کی تفصیلات شائع کر دی گئی ہیں۔‘
ابھی تک کسی سیاسی جماعت نے الیکشن کمیشن کی طرف سے کی جانے والی اس حلقہ بندی پر کوئی بڑا اعتراض نہیں کیا ہے۔ یوں کمیشن کی یہ سرگرمی غیرمتنازع ہی سمجھی جا رہی ہے۔
ماہرین کے مطابق اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ الیکشن کمیشن نے سرے سے کوئی بڑی تبدیلی متعارف ہی نہیں کروائی ، جس کی وجہ سے کوئی بڑا اعتراض بھی سامنے نہیں آیا ہے۔
رشید چوہدری کا کہنا ہے کہ پارلیمنٹ نے الیکشن کمیشن کو قانون سازی کے ذریعے ضلعوں کے بجائے آبادی کے لحاظ سے حلقہ بندی کرنے کے اختیارات دیے مگر کمیشن نے ان اختیارات کا زیادہ کھل کر استعمال نہیں کیا ہے۔
صحافی ماجد نظامی انتخابی امور پر گہری نظر رکھتے ہیں۔
ان کی رائے میں الیکشن کمیشن نے کسی حد تک سیاسی جماعتوں کو اس حلقہ بندی کے تحت ریلیف ہی دیا ہے۔
انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’سانگھڑ کی جو نشست کم ہوئی ہے وہاں پیپلز پارٹی کی پوزیشن زیادہ مضبوط نہیں سمجھتی جاتی جبکہ یہ نشست اب کراچی کو دے دی گئی ہے۔‘
ان کے مطابق ’معمولی تبدیلیاں بھی حلقہ بندیوں میں اس طرح کی گئی ہیں کہ جس کا فائدہ بڑی سیاسی جماعتیں ہی اٹھائیں گی۔‘
تاہم ان کی رائے ہے کہ ’ان حلقہ بندیوں سے پنجاب کے نیم شہری علاقوں میں تحریکِ انصاف کو نقصان ہو سکتا ہے۔‘
واضح رہے کہ اب اگر کسی کو حلقہ بندی پر کوئی اعتراض ہو گا تو اسے اب الیکشن کمیشن کے بجائے عدالتوں کا رخ کرنا پڑے گا۔
رشید چوہدری کا کہنا ہے کہ ’الیکشن کمیشن کی طرف سے حتمی حلقہ بندیوں سے اب غیریقینی کی صورتحال بھی کافی کم ہو گی اور اب ووٹر لسٹیں منجمد کر کے انتخابی شیڈول جاری کیا جائے گا۔‘
حلقہ بندیوں کی مزید تفصیلات
الیکشن کمیشن کے مطابق صوبہ پنجاب میں اٹک سے قومی اسمبلی کی دو، راولپنڈی کی چھ اور راولپنڈی اور مری کی ملا کر ایک جنرل نشست ہو گی۔
وزیر آباد اور حافظ آباد کی ایک، ایک نشت جبکہ منڈی بہاؤالدین کی دو نشستیں ہوں گی۔
فیصل آباد کی دس اور لاہور کی 14 نشستیں ہوں گی۔ ڈیرہ غازی خان اور راجن پور کی تین، تین نشستیں ہوں گی۔
صوبہ بلوچستان میں شیرانی، ژوب، قلعہ سیف اللہ پر مشتمل قومی اسمبلی کا ایک حلقہ ہوگا۔ جبکہ موسی خیل، بارکھان، لورالائی، دکی پر بھی مشتمل قومی اسمبلی کا ایک ہی حلقہ ہوگا۔
خضدار کا ایک جبکہ پنجگور اور کیچ پر مشتمل قومی اسمبلی کا ایک حلقہ ہو گا۔ کیچ اور گوادر پر مشتمل بھی ایک ہی حلقہ ہو گا۔ کوئٹہ سے قومی اسمبلی کے تین حلقے ہوں گے۔
الیکشن کمیشن کے اعلامیے کے مطابق صوبہ سندھ میں سانگھڑ اور میر پور خاص کے دو، دو جبکہ عمرکوٹ کا ایک اور تھرپارکر کے دو حلقے ہوں گے۔
مٹیاری اور ٹنڈواللہ یار کے قومی اسمبلی کے ایک، ایک حلقے ہوں گے۔ سجاول، ٹھٹہ، جامشورو، کے قومی اسمبلی کا ایک، ایک حلقہ ہو گا۔
ملیر کے قومی اسمبلی کے تین، کورنگی کے تین، کراچی ایسٹ اور کراچی ساؤتھ کے چار، چار حلقے ہوں گے۔ کیماڑی کے دو، کراچی ویسٹ کے تین، کراچی سینٹرل کے قومی اسمبلی کے چار حلقے ہوں گے۔
الیکشن کمیشن کی جاری کردہ حتمی حلقہ بندیوں کے مطابق صوبہ خیبر پختونخوا میں نشستوں کی تعداد 99 سے 115 کی گئی ہے جو دراصل 25 ویں آئینی ترمیم کی وجہ سے ہے۔ اپر اور لوئر چترال سے قومی اسمبلی کا ایک اور سوات کے تین حلقے ہوں گے۔
ہنگو اور اورکزئی پر مشتمل قومی اسمبلی کا ایک جبکہ کرم، کرک، بنوں کا ایک، ایک حلقہ ہو گا۔
شمالی وزیرستان اور لکی مروت کا ایک قومی اسمبلی کا حلقہ ہو گا جبکہ اپر اور لوئر جنوبی وزیرستان پر مشتمل ایک جبکہ ٹانک اور ڈیرہ اسماعیل خان پر مشتمل قومی اسمبلی کا ایک حلقہ ہو گا۔ ڈیرہ اسماعیل خان سے قومی اسمبلی کے دو حلقے ہوں گے۔