’سلمان بٹ کرکٹ کی تاریخ کے سب سے بڑے سپاٹ فکسنگ سکینڈل میں ملوث رہے، وہاب ریاض کو ایک بُکی سے پیسے لیتے دیکھا گیا، کامران اکمل سے سڈنی گیم کے بارے میں پوچھ گچھ کی گئی۔ یہ سب مل کر اب پاکستان کی ٹیم کا انتخاب کریں گے۔ میرے پاس الفاظ نہیں۔۔۔‘
گذشتہ روز کچھ ایسے ہی خیالات پاکستان کے سوشل میڈیا پر اس وقت دیکھنے کو ملے جب پاکستان کرکٹ بورڈ نے سابق کرکٹرز سلمان بٹ، کامران اکمل اور راؤ افتخار انجم کو پاکستان کرکٹ ٹیم کے چیف سلیکٹر وہاب ریاض کے کنسلٹنٹس کے طور پر مقرر کیا۔
پی سی بی کے مطابق یہ تینوں فوری طور پر اپنی ذمہ داریاں نبھائیں گے اور 12 جنوری سے نیوزی لینڈ میں ٹی ٹوئنٹی میچز ان کی پہلی اسائنمنٹ ہو گی۔ واضح رہے کہ اس سیریز میں پاکستان اور نیوزی لینڈ کے مابین پانچ ٹی ٹوئنٹی میچ کھیلے جائیں گے۔
سوشل میڈیا پر پی سی بی کے اس فیصلے پر خاصی تنقید ہو رہی ہے۔ بعض صارفین پاکستان کرکٹ بورڈ میں ’صرف پنجاب سے ہونے والی‘ نئی تعیناتیوں پر سوال اٹھاتے ہوئے اپنے خدشات کا اظہار کر رہے ہیں۔
یاد رہے کہ سلمان بٹ سنہ 2010 میں سپاٹ فکسنگ سکینڈل کے مرکزی کردار رہے تھے۔ انھیں اپنے دو ساتھی کرکٹرز محمد آصف اور محمد عامر کے ساتھ نہ صرف آئی سی سی کی جانب سے پابندی کا سامنا کرنا پڑا تھا بلکہ لندن کی عدالت نے انھیں قید کی سزا بھی سنائی تھی اور وہ ڈھائی سال جیل میں رہے تھے۔ جبکہ اس کیس میں وہاب ریاض وہ چوتھے کرکٹر تھے جن سے سکاٹ لینڈ یارڈ نے پوچھ گچھ کی تھی مگر پر کوئی الزام ثابت نہیں ہوا تھا۔
خیال رہے کہ شعیب اختر نے اپنی کتاب میں لکھا تھا کہ ماضی میں ایک نیٹ سیشن کے دوران انگلش بلے باز جوناتھن ٹروٹ (جو اب افغانستان کے کوچ ہیں) نے وہاب ریاض کو ’فکسر‘ کہا تھا جس پر وہاب ریاض نے انھیں لیگل نوٹس بھیجنے کی دھمکی دی تھی۔
’سلمان بٹ پر ٹیپ بال کرکٹ کھیلنے پر بھی پابندی عائد کرنی چاہیے تھی‘
پی سی بی کی پریس ریلیز کے مطابق سلمان بٹ، کامران اکمل اور راؤ افتخار انجم جب ’سلیکشن ڈیوٹی پر نہیں ہوں گے تو اس دوران انھیں اضافی کام دیے جائیں گے، جیسے سکلز کیمپ کا قیام۔‘
’کنسلٹنٹ کا کام چیف سلیکٹر (وہاب ریاض) کو تجاویز دینا، فیڈ بیک لینا اور ڈومیسٹک کرکٹ میں بہترین کارکردگی دکھانے والے ٹیلنٹ کی نشاندہی کرنا ہے۔‘
اس میں بتایا گیا ہے کہ کنسلٹنٹس کا کام معلومات فراہم کرنا ہے جس کی بنیاد پر چیف سلیکٹر اور سلیکشن کمیٹی فیصلے لے سکیں۔ ’کنسلٹنٹ کے پاس یہ اختیار نہیں کہ وہ آزادانہ طور پر فیصلے لے سکیں۔‘
مگر سوشل میڈیا پر سابق کرکٹرز سمیت اکثر صارفین اس فیصلے سے ناخوش دکھائے دے رہے ہیں۔
اس فیصلے پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے ایک صارف نے لکھا کہ ’13 برس گزر گئے لیکن سپاٹ فکسنگ سکینڈل ابھی بھی ہمیں تکلیف دیتا ہے۔ مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ کرکٹ کے بارے میں کتنے تجربہ کار ہیں لیکن یہ قابل مذمت ہے کہ پی سی بی نے سلمان بٹ کو یہ عہدہ لینے کی اجازت دی۔۔۔‘
سپورٹس صحافی فیضان لکھانی نے یہ لکھ کر اپنی حیرانی کا اظہار کیا کہ ’سمجھ نہیں آ رہی کہ ان تعیناتیوں پر کیا ردعمل دیا جائے۔‘
ایک صارف نے لکھا ’انتہائی مضحکہ خیز۔۔۔ ہم کیا پیغام دے رہے ہیں۔ میں شرطیہ کہہ سکتا ہوں کہ ہماری جنریشن میں سے بہت لوگوں نے سلمان بٹ، محمد آصف اور عامر کے بعد کرکٹ دیکھنا اور گرین شرٹس میں لڑکوں کی حمایت کرنا چھوڑ دیا۔‘
صحافی وجاہت کاظمی نے لکھا کہ ’کامران اکمل کے کیرئیر کو دیکھتے ہوئے مجھے خوف ہے کہ وہ تمام کھلاڑیوں کو ٹیم سے ڈراپ کر دیں گے۔‘
ابو بکرنامی صارف نے لکھا کہ ’اس فیصلے سے اب نوجوانوں کے کیرئیر خطرے میں ہیں۔‘
ایک اور صارف نے لکھا کہ ’سلمان بٹ نے بحیثیت پاکستان کرکٹ ٹیم کے کپتان جو کیا ان پر تو گلیوں میں ٹیپ بال کرکٹ کھیلنے پر بھی پابندی عائد کر دینی چاہیے تھی، آج انھیں نیشنل سلیکشن کمیٹی کا مشیر مقرر کیا گیا، یہ ہماری کرکٹ کی تاریخ میں سیاہ دن ہے۔‘
لیکن بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں، جن کے خیال میں پاکستانی کرکٹ بورڈ کا یہ فیصلہ غلط نہیں۔
صحافی عمران صدیق نے لکھا کہ ’سلمان بٹ سے غلطی ہوئی، انھوں نے سزا کاٹی اور اپنی غلطی تسلیم کی۔‘
انھوں نے مزید لکھا کہ ’پڑھے لکھے معاشروں میں لوگوں کو دوسرا موقع دیا جاتا ہے۔ سلمان بٹ ایک انسان ہیں، خدارا ان کو جینے دیں۔‘
ایک اور صارف نے لکھا ’وہ تمام لوگ جو کہہ رہے ہیں کہ سلمان بٹ نے جو کیا اس کی سزا بھگت لی، میں ان سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا آسٹریلیا میں سپاٹ فکسنگ کرنے والے کو ایسا عہدہ دیا جاتا۔
’اس سوال کے جواب سے آپ کو پتا چل جائے گا کہ کیوں ہم عظیم یا چیمپیئن قوم نہیں۔‘
اس دوران شعیب ملک کا ایک سابقہ انٹرویو بھی گردش کر رہا ہے جس میں وہ سلمان بٹ کی کرکٹ سینس کی تعریف کرتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’بہت چند لوگ ہیں جو تکنیکی چیزوں پر بات کرتے ہیں۔۔۔ بٹ صاحب لگے رہیں۔ ہم آپ کا شو بڑے شوق سے دیکھتے ہیں۔‘
خیال رہے کہ موجودہ ڈائریکٹر کرکٹ محمد حفیظ ان لوگوں میں شامل تھے جو ’ٹینٹڈ‘ کرکٹرز کی ٹیم میں واپسی کی مخالفت کرتے تھے۔
سپاٹ فکسنگ سکینڈل کیا تھا؟
2010 میں پاکستانی کرکٹ ٹیم کے دورۂ انگلینڈ کے دوران سپاٹ فکسنگ سکینڈل سامنے آیا جس میں تین کرکٹرز سلمان بٹ، محمد آصف اور محمد عامر ملوث تھے۔
اس سکینڈل میں یہ بات سامنے آئی کہ پاکستانی فاسٹ بالرز محمد عامر اور محمد آصف مبینہ طور پر بک میکر سے طے کیے گئے معاملات کے مطابق نو بال کریں گے۔
آئی سی سی نے اس معاملے کی تحقیقات کے لیے ٹریبونل قائم کیا جس نے سلمان بٹ پر دس سال کی پابندی عائد کی جن میں پانچ سال معطل سزا کے تھے۔ محمد آصف پر سات سال کی پابندی عائد کی گئی جن میں دو سال معطل سزا کے تھے جبکہ محمد عامر پر پانچ سالہ پابندی عائد کی گئی۔
یہ تینوں کرکٹرز لندن کی عدالت کی جانب سے سزاؤں سے بھی نہ بچ سکے۔
محمد عامر کو چھ ماہ قید کی سزا سنائی گئی۔ محمد آصف کو ایک سال قید کا سامنا کرنا پڑا جبکہ کپتان سلمان بٹ کو ڈھائی سال قید کی سزا سنائی گئی ۔