ڈیرہ اسماعیل خان: جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے مدارس کے حوالے سے پیدا کی گئی پیچیدگیوں پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مدارس سے متعلق معاملے کو غیر ضروری طور پر پیچیدہ بنایا گیا ہے، اور اب تک سمجھ نہیں آ رہا کہ اس معاملے کو گھمبیر بنانے والے کس مقصد کے لیے ایسا کر رہے ہیں۔
ڈیرہ اسماعیل خان میں پریس کانفرنس کے دوران مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ مدارس کے بینک اکاؤنٹس سے متعلق ڈرافٹ تیار کیا گیا تھا، اور 26ویں آئینی ترمیم کے دوران اس پر کام جاری تھا۔ “مدارس بل پہلے سینیٹ سے پاس ہو چکا تھا، اور پھر قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا۔ اس کے باوجود، اس بل پر دستخط کیوں نہیں کیے گئے؟” انہوں نے اس سوال کا جواب دینے کے لیے حکومت سے وضاحت طلب کی۔
انہوں نے کہا کہ اس مسئلے کو الجھانے کی ضرورت نہیں تھی، کیوں کہ ہم نے دینی مدارس کے بل میں کی جانے والی ترمیم کو قبول کیا تھا۔ مولانا فضل الرحمان نے مزید کہا کہ پیپلزپارٹی اور ن لیگ کے ساتھ اس معاملے پر بات چیت ہوئی تھی اور اتفاق رائے قائم کیا گیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمیں کسی مدرسے یا علمائے کرام سے شکایت نہیں، تاہم ایوان صدر اور صدر مملکت سے سوال کیا کہ آصف زرداری نے اس بل پر دستخط کیوں نہیں کیے؟ اور اس پر اعتراضات کیوں اٹھائے گئے؟