جب بھی ماحول کے تحفظ اور ماحولیاتی تبدیلی کی بات کی جاتی ہے تو زیادہ توجہ اس کی وجہ سے ہونے والی انسانی نقصان پر ہوتی ہے لیکن جنگلی حیات کو بھی اس سے اتنا ہی خطرہ ہے۔
جنگلی حیات کی تحفظ کی تنظیم آئی یو سی این نے حال ہی میں بتایا ہے کہ یہ بحران 12260 جنگلی حیات کی اقسام کو معدومیت کا خطرہ ہے۔
ناؤنٹین گوریلا، چائنیز پینگولین اور لیدربیک ٹرٹل اس فہرست میں شامل ہیں۔ ملیے ان تین خواتین سے جو ان جانوروں کا تحفظ کر رہی ہیں۔
ماؤنٹین گوریلا
جب 1996 میں گلیڈیز کالیما-زیکوسوکا نے یوگینڈا کے بونڈی امپینیٹریبل نیشنل پارک میں کام کرنا شروع کیا تو ماؤنٹین گوریلا کی آبادی تیزی سے کم ہو رہی تھی۔ لیکن ان کی محنت کے بدولت اب ان کی آبادی میں دو تہائی اضافہ ہوا ہے، اب ان کی کل تعداد 500 ہو گئی ہے۔
اس سے مغرب میں ڈیموکریٹک ریپبلک آف کانگو کے ویرنگا نیشنل پارک میں بھی اتنے ہی گوریلا موجود ہیں۔
گلیڈیز کالیما-زیکوسوکا کی محنت کا ہی نتیجہ ہے کہ سنہ 2018 میں آئی یو سی این کی معدومیت کے خطرے کا شکار جانوروں کی ’ریڈ‘ فہرست میں ماؤنٹین گوریلا کے درجے کو شدید خطرے سے دوچار جانور سے تبدیل کر کے صرف خطرے کا شکار قرار دیا۔
لیکن اس تبدیلی کے بعد انھوں نے اپنے کام کی شدت میں کمی نہیں لائی۔ سنہ 1950 سے یوگینڈا میں ہر سال درجہ حرارت تقریباً ایک چوتھائی ڈگری سیلسیس شرح سے بڑھ چکا ہے۔
جس کی وجہ سے ماؤنٹین گوریلا کے لیے پانی کی کمی ہو گئی ہے۔ اس صورتحال میں یہ جانور زیادہ نمی والے پودوں کو کھا کر اپنی ضرورت پوری کر رہے ہیں لیکن یہ پودے اونچائی والے علاقوں میں کم ہوتے جا رہے ہیں۔
گلیڈیز کہتی ہیں کہ ’یہ ایک وجہ ہو سکتی ہے جس کی وجہ سے وہ پہاڑوں کے نچلے حصوں میں موجود لوگوں کی فصلوں میں زیادہ آتے ہیں۔ وہاں وہ کیلوں کے صندوقوں کے لیے آتے ہیں جن میں بہت نمی ہوتی ہے اور اس وجہ سے کسانوں کے ساتھ تنازعات میں اضافہ ہوا ہے۔‘
گلیڈیز اور ان کی ٹیم کسانوں سے زمینیں خرید کر نیشنل پارک کے علاقے کو بڑھا رہی ہیں تاکہ گوریلا بغیر کسی رکاوٹ کے پہاڑوں کے کسی بھی حصے میں خوراک کی تلاش کر سکیں۔
1990 میں جب گلیڈیز لندن میں رائل وٹینیری کالج میں طالب علم تھیں تو انھیں معلوم ہوا کہ بندروں اور گوریلا کو انسانوں سے پیدا ہونے والی بیماریوں اور آماجگاہ کھونے کے خطرات ہیں یہ جاننے کے بعد انھوں نے ان کے تحفظ کا کام شروع کیا۔
وہ فیلڈ میں کام کر رہی تھیں جہاں انھوں کی پہلی دفعہ ایک ماؤنٹین گوریلا سے ملاقات ہوئی اس کا نام کاکوپیرا تھا۔
گلیڈیز کہتی ہیں ’وہ بہت پرسکون اور ملنسار تھا اور جب میں نے اس کی گہری بھوری آنکھوں میں دیکھا تو مجھے گہرا تعلق محسوس ہوا۔‘
گریجوایشن کے بعد وہ یوگینڈا کی پیلی جنگلی حیات کی ڈاکٹر بن گئیں اور یوگینڈا نیشنل پارک کے ساتھ انھوں نے کام شروع کر دیا جو بعد میں یوگینڈا وائلڈ لائف اتھارٹی بن گئی۔
ماحولیاتی تبدیلی کی تیز رفتاری کی وجہ سے گوریلا کی آبادی میں انسانی بیماریوں کے پھیلاؤ میں اضافہ ہو گیا ہے۔
اس کی کچھ وجہ بڑھتا ہوا درجہ حرارت ہے لیکن قحط بھی وجہ ہے۔ پانی کی کمی کی وجہ سے اس تک رسائی حاصل کرنے کے لیے انسان نیشنل پارک میں اندر جا رہے ہیں اور اس سے بیماریاں گوریلا کی آبادی تک پہنچ رہی ہیں۔
گوریلا کو انسانوں سے کھجلی کی بیماری (سکیبیز)، جیارڈیا (ایک ایسا پیراسائٹ جس کی وجہ سے اسہال یا ڈائریا ہوتا ہے)، آنتوں کے کیڑے اور ریسپائریٹری سنسیشل وائرس سمیت سانس کی بیماری پکڑی ہے۔
اس وجہ سے گلیڈیز کی ٹیم گوریلا کی صحت کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے ان کے پاخانے کا ٹیسٹ کرتی رہتی ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ ’اگر ہمیں خطرناک انفیکشن کا پتا چلے تو ہم گوریلا کا علاج یقینی بناتے ہیں۔‘
اب یہ بھی خدشہ ہے کہ گوریلا کو ملیریا ہو رہا ہے۔ یہ بیماری انسانوں میں مزید عام ہو رہی ہے اور اس کی وجہ ماحولیاتی تبدیلی اور مچھروں کی تعداد میں اضافہ ہے۔
کنزرویشن تھرو پبلک ہیلتھ کی تنظیم ہے جو مقامی طبی عملے کو نیشنل پارک کے گرد یہاتوں تک پہنچانے میں مدد کرتی ہے۔ ان کا نعرہ ہے ’ون ہیلتھ‘ یعنی انسانوں اور گوریلا دونوں کو صحت مند رکھنا تاکہ وہ ایک دوسرے کو بیمار نہ کریں۔
’ہمارا یہ یقین ہے کہ اگر لوگ صحت مند ہوں گے تو گوریلا بھی صحت مند ہوں گے۔‘
چائنیز پینگولینز
سنہ 2008 میں تلسی سووال کھٹمنڈو میں زوآلوجی (حیوانیات) کی طالب علم تھیں وہ اپنی کلاسز میں اپنے بیٹے کو اپنی کمر پر اٹھا کر موجود رہتی تھیں اس وقت ان کا بیٹا بہت چھوٹا تھا۔ یہ ایک چائنیز پینگولین تھا۔
ایک دن شہر کے باہر جب وہ فیلڈ پر کام کر رہی تھیں تو ان کی نظر ایک ایسے جانور پر پڑی جو ان کی طرح اپنے بچے کو کمر پر اٹھائے چل رہا تھا۔ یہ جانور رات کو سرگرم رہنے، جلد پر موجود سکیلز والے ممالیہ جانوروں کی آٹھ اقسام میں سے ایک ہے۔
تلسی کہتی ہیں ’وہ وہی کر رہا تھا جو میں کیا کرتی تھی۔‘ اس کے بعد انھوں نے اس جانور کا مشاہدہ کرنے کا فیصلہ کیا۔
جانوروں کا تحفظ کرنے والی تنظیموں کا کہنا ہے کہ دنیا میں پینگولین کا سب سے زیادہ غیر قانونی شکار ہوتا ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ روایتی چینی ادویات میں ان کی سکیلز کا استعمال ہوتا ہے جب کہ کچھ کو کھایا جاتا ہے۔
لیکن آئی یو سی این کی ’ریڈ‘ فہرست میں انھیں شدید خطرے کا شکار قرار دیا گیا ہے اور انھیں ماحولیاتی تبدیلی سے بھی خطرات ہیں۔
ہمالیہ کے دامن میں انھیں جنگلی آگ سے خطرہ ہے۔ اب یہ زیادہ ہوتی ہیں اور ان کی شدت میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ اس کی وجہ سے پودے جل جاتے ہیں، کیڑے اور دیمک مر جاتی ہیں جو کہ اس جانور کی خوراک ہے۔
دھواں پینگولین کے بلوں میں چلا جاتا ہے جس کی وجہ سے انھیں مجبوراً دن کے وقت بھی باہر نکنا پڑتا ہے۔
تلسی کہتی ہیں کہ ’یہ وہ وقت ہے جب انسان یا دوسرے جانور ان کا شکار کر لیتے ہیں۔‘
تلسی نے چھوٹے ممالیہ جانوروں پر تحقیق کرنے والی اور ان کا تحفظ کرنے والی تنظیم کی بنیاد رکھی۔
نیپال میں جہاں بھی پینگولین پائے جاتے ہیں یہ تنظیم جنگلی آگ کو روکنے کا کام کرتی ہے۔
یہ تنظیم ایسے مقامات بناتے ہیں جہاں کوئی سبزہ نہیں ہوتا جس سے آگ کے مزید پھیلنے کا خطرہ کم ہو جاتا ہے۔
اس کے علاوہ وہ بڑے پتوں والے درختوں کو مقامی کون والے درختوں سے تبدیل کر رہے ہیں تاجہ زمین پر مرجھائے ہوئے پتوں کی تعداد میں کمی آئے جو آگ پکڑ لیتے ہیں۔
تلسی کہتی ہیں کہ ’ہم پتوں کو قدرتی کھاد میں تبدیل کرنے کے لیے مقامی برادری کی ٹیکنالوجی اور پیسوں سے مدد کر رہے ہیں۔‘
قریب کے دریاؤں سے منسلک کنال کے ذریعے خشک ہونے والی جھیلوں کو بھرا جا رہا ہے جس سے پینگولینز کو پانی کی رسائی ہو رہی ہے اور جنگلی آگ کو روکنے میں بھی مدد ہو رہی ہے۔ .
اس وجہ سے جنگل کی زمین بھی نم ہو رہی ہے جس سے پینگولین کو کھانے کے لیے چیونٹیاں اور دیمک مل جاتی ہیں۔
کسانوں کو پینگولینز سے فائدہ ملتا ہے وہ کیڑوں کو کھاتے ہیں جس سے ان کی فصل بچ جاتی ہے لہذا مقامی لوگوں میں تلسی کے اقدامات کی حمایت میں اضافہ ہو رہا ہے۔
تلسی کہتی ہیں ’وہ بے ضرر جانور ہیں۔ جب انھیں خطرہ محسوس ہوتا ہے وہ مڑ کر گیند بن جاتے ہیں لیکن وہ موسمیاتی تبدیلیوں سے اپنے آپ کو محفوظ نہیں رکھ سکتے۔‘
لیدربیک کچھوے
بحر الکاہل کے جزیرے کے لوگوں کو بڑھتے ہوئے سطح سمند سے خطرہ ہے لیکن اس کے ساتھ انیتا پوسولا کا ایک اور مسئلہ ہے۔ سلیمان جزائر کے ساحلوں پر لیدربیک کچھوؤں کے انڈوں کو سمندر میں بہنے سے کیسے بچایا جائے۔
آئی یو سی این کی ’ریڈ‘ فہرست کے مطابق یہ عالمی سطح پر معدومیت کے قریب تو نہیں ہیں لیکن یہ محفوظ بھی نہیں ہیں۔ لیکن امریکی نیشنل اوشینک اینڈ ایٹموسفیرک ایڈمنسٹریشن (NOAA) کے مطابق حالیہ دہائیوں میں مغربی بحرالکاہل میں ان کچھوؤں کی ذیلی آبادی میں 80 فیصد کمی آئی ہے۔
ان کچھوؤں کے لیے سب سے بڑا خطرہ غلطی سے مچھیروں کے جال میں پنسنے کے علاوہ انسانوں کے لیے خراک کے طور پر استعمال ہونا ہے۔ لیکن طوفانوں اور سطح سمند میں اضافہ بھی ان کے لیے خطرہ بن گیا ہے۔
یہ مادہ کچھوؤں کے لیے ضروری ہے کہ وہ ایسی جگہ پر انڈے دین جہاں سمندر کی بڑی لہریں نہ آتی ہوں ورنہ ان کے انڈے لہروں کے ساتھ بہہ جاتے ہیں لیکن یہ خطرہ بڑھ رہا ہے۔
انیتا ہاایوو کھولانو کنزرویشن ایریا میں رینجر ہیں وہ کہتی ہیں ’یہ سب بہت افسوسناک ہے۔ میں ان کی آبادی کو بحال کرنا چاہتی ہوں تاکہ میرے بچے مستقبل میں انھیں اپنے آس پاس دیکھ سکیں۔‘
لہذا جب وہ اور ان کی ٹیم یہ دیکھتی ہے کہ کچھوؤں نے ایسا جگہ انڈے دیے ہیں جہاں اب اونچی لہر آتی ہے وہ ریت کو کھود کر انڈے نکال کر انھیں زیادہ محفوظ جگہ پر لے جاتے ہیں۔
انیتا کہتی ہیں ’لیکن یہ جاننا ضروری ہے کہ کچھوؤں نے انڈے کہاں دیے ہیں، یہ رات کی شفٹ یا جب موسم خراب ہوتا ہے کافی مشکل ہو جاتا ہے۔‘
32 سال کی انیتا بتاتی ہیں کہ جب وہ چھوٹی تھیں وہ ایک نرس بننا چاہتی تھیں اور ابھی جو کام وہ کر رہی ہیں وہ اس سے ملتا جلتا ہے۔
وہ کہتی ہیں ’میں ایک نرس تو نہیں ہوں، لیکن کچھوؤں کی ہیچری میں کام کرتے ہوئے، ان کی حفاظت کرتے ہوئے اور کچھوؤں کو پیدا ہوتے دیکھتے ہوئے نرسنگ جیسا محسوس ہوتا ہے۔‘
تاہم گذشتہ نومبر انیتا کی امیدوں کے برعکس ہیچریز انڈوں کو تحفظ نہیں دے پائیں۔ طوفان کے ساتھ مل کر ایک اونچی لہر اس کے اوپر سے گزر گئی اور زیادہ تر انڈے تباہ ہو گئے۔
وہ کہتی ہیں ’یہ ساحل سمندر کا سب سے اونچا مقام تھا۔ ہم اس سے آگے انڈوں کو نہیں لے کر جا سکتے۔‘
اس کے بعد ان کی ٹیم نے ہیچری کے گرد ریت کی بوریاں رکھ دیں جن کی وجہ سے ابھی تک وہ جگہ خشک ہے۔
بڑھتا ہوا درجہ حرارت ایک اور مسئلہ ہے۔ حرارت سے کچھوے کی جنس تعین کرتا ہے۔ این او اے اے کے مطابق اگر جہاں انڈے دیے گئے ہیں وہاں کی ریت کا درجہ ہرارت 31 ڈگری سینٹی گریڈ سے زیادہ ہو تو پیدا ہونے والے کچھوے کی جنس مادہ ہوتی ہے اور اگر درجہ حرارت 27.7 ڈگری سینٹی گریڈ سے کم ہو تو نر ہوتے ہیں۔ تاہم اگر درجہ حرارت اس کے درمیان ہو تو انڈوں میں سے نر اور مادہ دونوں پیدا ہوتے ہیں۔
خطرہ یہ ہے کہ بڑھتی ہوئے درجہ حرارت والی دنیا میں نر کچھوے نایاب ہو جائیں گے اور اس سے ان کی آبادی کم ہوتی جائے گی۔
اس وجہ سے انڈوں کی ہیچریز ایسی جگہ بنائی جاتی ہیں جہاں کچھ سایہ ہو جس کی وجہ سے ریت کم گرم ہوتی ہے۔
لیکن ان جگوں کے درجہ حرارت کی پیمائش اور اس کو برقرار رکھنا ایک مشکل کام ثابت ہوا ہے۔ لیکن رینجرز ایک جانوروں کے تحفظ کی بین الاقوام تنظیم کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں جو انھیں درجہ حرارت کے لیے صحیح اور مؤثر آہلات فارہم کرتے ہیں۔
اس تنظیم کا کہنا ہے کہ رینجرز کی بدولت انیتا کے کنزرویشن ایریا میں لیدر بیک کچھوؤں کے سالانہ انڈے دینے کی جگہوں کی تعداد 10 سالوں میں تین گنا سے زیادہ ہو گئی ہے۔
انڈوں کو محفوظ جگہ پر منتقل کرنے سے تین ہزار کچھوے کے بچوں کی جانوں کو بچایا گیا ہے۔
حاصل ہونے والی کامیابیوں پر انیتا بہت خوش ہیں اور انھیں اس بات کی بھی خوشی ہے کہ ان دنوں ان کامیابیوں میں اکثر خواتین کا حصہ ہوتا ہے۔
وہ کہتی ہیں ’کچھ سال پہلے تک جزیرے پر اکثر رینجرز صرف مرد ہوتے تھے۔ لیکن اب ایک صرف خواتین کی رینجرز ٹیم ہے جو دن رات کام کرتی ہے۔