پاکستان کے صوبے بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں ایوب سٹیڈیم کے فٹ بال گرائونڈ میں منعقد ہونے والے جلسے میں جتنے لوگ جلسے کی جانب جارہے تھے اتنے ہی لوگ وہاں سے نکلتے ہوئے دکھائی دیے۔
پاکستان پیپلز پارٹی نے کوئٹہ میں جمعرات کو جو جلسہ منعقد کیا اس کا ماحول کسی طرح بھی روایتی جلسوں کی طرح نہیں تھا بلکہ وہ ایک میلے کا سماں پیش کررہا تھا۔
نہ صرف جلسہ گاہ کے باہر ایک میلے کا سماں تھا بلکہ جلسہ گاہ کے اندر بھی یہی ماحول تھا کیونکہ جلسے کے پچھلے حصے میں لوگ مستقل ایک طرف سے دوسری جانب حرکت کرتے ہوئے دکھائی دیے۔
کوئٹہ میں پارٹی کا یہ جلسہ عام اس حوالے سے بھی منفرد تھا کہ اس میں خواتین کی ایک بڑی تعداد شریک تھی۔
عام انتخابات کی مناسبت سے اب تک قومی دھارے کی جن دو بڑی جماعتوں کے رہنمائوں نے بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ کا دورہ کیا ان میں نوازلیگ اور پیپلز پارٹی کی رہنما شامل تھے لیکن نوازلیگ کے مقابلے میں پیپلز پارٹی کی قیادت نے کوئٹہ کی سیاسی ماحول کو گرما دیا۔
پارٹی قیادت کی سرگرمیاں بڑے ہوٹل تک محدود نہیں رہیں
اگرچہ پیپلز پارٹی کی قیادت سے قبل نواز لیگ کی قیادت نے بھی کوئٹہ کا دورہ کیا تھا لیکن سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کی قیادت میں نواز لیگ کے قائدین کی سرگرمیاں بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ شہر کے سب سے بڑے ہوٹل تک ہی محدود رہیں۔
پیپلز پارٹی کی قیادت کا قیام بھی تھا تو اسی ہوٹل میں لیکن پیپلز پارٹی کے رہنمائوں نے اپنی سرگرمیوں کو ہوٹل تک محدود نہیں رکھا بلکہ انھوں کوئٹہ کے سرد ماحول میں ہلچل پیدا کی اورسیاسی ماحول کو گرما دیا۔
پیپلز پارٹی کی تاریخ میں پہلی مرتبہ یوم تاسیس کا جلسہ کوئٹہ میں رکھا گیا اور پارٹی کے کوئٹہ میں آنے والے قائدین نے اس جلسے میں شرکت کی اور اس سے خطاب بھی کیا۔
اس جلسے کی وجہ سے کوئٹہ کی متعدد شاہراہوں کو پارٹی کے پرچموں، بینرز اور پارٹی کے قائدین کی تصاویر والے پینافلیکسز سے سجایا گیا تھا جبکہ کوئٹہ کی فضائیں پیپلزپارٹی کے ترانوں اور جیئے بھٹو کے نعروں سے گونجتی رہیں۔
نواز لیگ کے اہم رہنمائوں میں سے صرف سابق وزیر اعظم شہباز شریف دورہ کوئٹہ کے موقع پر سیاسی اور قبائلی رہنما نوابزادہ لشکری رئیسانی کو پارٹی میں شمولیت کی دعوت دینے کے لیے ان کے گھر ساراوان ہاؤس گئے جبکہ باقی الیکٹیبلز اور سیاسی شخصیات پارٹی میں شمولیت کے لیے ہوٹل آئے تھے۔
جبکہ اس کے برعکس سابق صدر آصف علی زرداری الیکٹیبلز کے پاس جناح ٹاؤن گئے جہاں الیکٹیبلز نے پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کی۔
’جلسہ اب ختم ہو گیا ہے ‘
انتظامیہ کہ جانب سے پارٹی کو جلسے کے لیے ایوب سٹیڈیم دیا گیا تھا جسے بھرنا سیاسی جماعتوں کے لیے ایک آزمائش سے کم نہیں ہوتا ہے۔
ایوب سٹڈیم شہر کے مرکز سے نہ صرف نسبتاً کچھ فاصلے پر بلکہ یہاں سیاسی جماعتوں کو جلسے کے لیے فٹ بال گرائونڈ دیا جاتا ہے جس کا ایریا بہت بڑا ہے۔
ایوب سٹڈیم میں اب تک قوم پرست یا مذہبی سیاسی جماعتیں زیادہ لوگ لانے میں کامیاب رہی ہیں۔
کیا پیپلز پارٹی بھی اس حوالے سے کامیاب رہی اس کا صحیح اندازہ لگانا جلسوں کو کور کرنے والے صحافیوں کے لیے کسی حد تک مشکل تھا کیونکہ جلسے کے منتظمین نے جلسے میں آنے والے لوگوں کو جلسے میں بٹھانے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ یہی وجہ ہے کہ ایسا لگ رھا تھا کہ لوگ جلسے میں نہیں بلکہ کوئی میلہ دیکھنے آ رہے ہیں۔
ایوب سٹڈیم کے مین گیٹ سے جتنے لوگ جلسے کی جانب جارہے تھے اتنی ہی تعداد میں لوگ وہاں سے باہر آتے ہوئے دکھائی دے رہے تھے۔ یہ سلسہ آحر تک جاری رہا، حتیٰ کہ جلسے کے اختتام پر وہاں آنے والے لوگوں کو کچھ لوگ بتاتے رہے کہ جلسہ اب ختم ہوگیا ہے۔
جلسے میں خواتین کی بڑی تعداد میں شرکت
بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں سیاسی جماعتوں کے جلسوں میں خواتین نے بھی شرکت کرنا شروع کیا ہے لیکن ان کی تعداد بہت زیادہ نہیں رہی ہے۔
بلوچستان کی سطح پربلوچ قوم پرست جماعتوں کے جلسوں اور ریلیوں میں خواتین کی زیادہ شرکت نظرآرہی ہے تاہم پیپلز پارٹی کی یوم تاسیس کے حوالے سے کوئٹہ میں منعقدہونے والے جلسے میں خواتین کی ایک بڑی تعداد شریک تھی۔
جلسہ گاہ کے ایک حصے کو خواتین کے لیے مخصوص کیا گیا تھا جس کے باعث خواتین کو جلسہ گاہ میں بیٹھنے اور جلسہ گاہ کی طرف آنے اور جانے میں کسی مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔
کوئٹہ میں سیاسی جلسوں اور جلوسوں کو کور کرنے والے سینئر فوٹو گرافر بنارس خان کے مطابق انھوں اب تک جتنے سیاسی جلسے کور کیے ان میں سے پیپلز پارٹی کی یوم تاسیس کے جلسے میں خواتین کی شرکت سب سے زیادہ تھی۔
پارٹی سے تعلق رکھنے والی خواتین کارکن جلسہ گاہ کی جانب نہ صرف جلوس کی جانب آتی رہیں بلکہ وہ راستے میں خوب نعرے بازی بھی کرتی رہیں۔
پیپلز پارٹی میں کون سے الیکٹیبلز اور سیاسی شخصیات شامل ہوئیں ؟
پیپلز پارٹی کے مرکزی قیادت کے دورہ کوئٹہ کے دوسرے روز الیکٹیبلز اور سیاسی شخصیات نے بھی پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کی۔
ملک شاہ ہاؤس کوئٹہ میں پیپلز پارٹی میں شمولیت کرنے والوں میں بلوچستان کے سابق وزرا نصیب اللہ مری اور سردار سرفراز چاکر ڈومکی شامل تھے۔
نصیب اللہ مری کا تعلق تحریک انصاف جبکہ سردار سرفراز ڈومکی کا تعلق بلوچستان عوامی پارٹی سے تھا وہ دونوں 2013ء کے عام انتخابات میں بلوچستان اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے۔
سابق رکن بلوچستان اسمبلی ثمینہ شکیل نے بھی پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیارکی وہ 2013 کے عام انتخابات میں خواتین کی مخصوص نشست پر رکن بلوچستان اسمبلی منتخب ہوئیں۔ اس سے قبل وہ بلوچستان عوامی پارٹی میں تھی۔
پیپلز پارٹی کے ایک اعلامیے کے مطابق پارٹی میں شمولیت کرنے والی دیگر شخصیات میں میر حربیار ڈومکی، میر لیاقت لہڑی، میر حسن خان ،انعام کھیتران، ولی خان غیبزئی، ناصر رند ،علاؤالدین کاکڑ اورسردار آصف مینگل شامل تھے۔