امریکہ میں سکھ رہنما کے قتل کا منصوبہ: ’ایسے آپریشن دوست ممالک میں نہیں کرتے، ایسی حرکت پاکستان میں کرتے تو کوئی سوال نہ پوچھتا‘ –

Facebook
Twitter
LinkedIn
Pinterest
Pocket
WhatsApp
امریکہ میں سکھ رہنما کے قتل کا منصوبہ: ’ایسے آپریشن دوست ممالک میں نہیں کرتے، ایسی حرکت پاکستان میں کرتے تو کوئی سوال نہ پوچھتا‘ –

،تصویر کا ذریعہGetty Images

امریکہ نے کہا ہے کہ نیو یارک میں اس کے ایک شہری اور علیحدگی پسند سکھ رہنما کے قتل کا منصوبہ ناکام بنایا گیا ہے۔ گرفتار انڈین شہری نکھل گپتا عرف ’نِک‘ پر الزام ہے کہ انھوں نے اس قتل کے لیے ایک ہٹ مین (کرائے کے قاتل) کی خدمات ایک لاکھ امریکی ڈالر کے عوض حاصل کرنے کی کوشش کی تھیں۔

امریکی پراسیکیوٹرز کا کہنا ہے کہ یہ مبینہ ہٹ مین درحقیقت ایک ’انڈر کوور‘ فیڈرل ایجنٹ تھا، یعنی یہ شخص خفیہ طور پر قانون نافذ کرنے والے امریکی ادارے کے لیے کام کرتا تھا۔

52 سال کے نکھل گپتا چیک ریپبلک کی ایک جیل میں قید ہیں اور اُن کی امریکہ منتقلی زیر التوا ہے۔ پراسیکیوٹرز کی جانب سے عائد کیا گیا الزام ثابت ہونے کی صورت میں انھیں 20 سال قید کی سزا سنائی جا سکتی ہے۔

نکھل سے مبینہ طور پر انڈین حکومت کے ایک اہلکار نے براہ راست رابطہ کیا تھا۔ دستاویزات میں اُس انڈین اہلکار کا نام ظاہر نہیں کیا گیا ہے اور نہ ہی ان پر فردِ جرم عائد کی گئی ہے۔

وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ اس نے مبینہ قتل کے منصوبے کا معاملہ اعلیٰ سطح پر انڈیا کے ساتھ اٹھایا ہے جس پر انڈین حکام نے ’حیرانی اور تشویش‘ کا اظہار کیا ہے۔

امریکی انتظامیہ کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے کہا ہے کہ صدر جو بائیڈن اس معاملے پر اس قدر تشویش میں مبتلا ہوئے کہ انھوں نے ڈائریکٹر سی آئی اے ولیم برنز اور ڈائریکٹر نیشنل انٹیلیجنس ایورل ہینز پر مشتمل امریکی اٹیلیجنس کے اعلیٰ حکام کو انڈیا سے بات کرنے کے لیے روانہ کیا۔

دریں اثنا انڈین حکومت نے کہا ہے کہ ان کی جانب سے اس معاملے کی تحقیقات کی جا رہی ہے۔

امریکہ، انڈیا، سکھ رہنما، قتل، ادائیگی،  گرو پتونت سنگھ پنون

،تصویر کا ذریعہUS DEPARTMENT OF JUSTICE

’میرے قتل کے منصوبہ سازوں کو قانون کا سامنا کرنا پڑے گا‘

پراسیکیوٹرز نے اس منصوبے کے ہدف کا نام ظاہر نہیں کیا۔ تاہم امریکی میڈیا کے مطابق یہ مبینہ منصوبہ امریکی اور کینیڈین دہری شہریت کے حامل گرو پتونت سنگھ پنوں کے قتل کا تھا جو امریکہ میں قائم سکھ علیحدگی پسند گروہ کے رکن ہیں۔

پنوں نے اس مبینہ منصوبے پر بی بی سی ایشیئن نیٹ ورک سے گفتگو کے دوران کہا کہ ’کیا انڈیا سرحد پار دہشتگردی استعمال کرنے کے نتائج کے لیے تیار ہے؟‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’جو بھی میرے قتل کی کوشش کر رہا تھا، چاہے اس میں انڈین سفارتکار یا انڈین را (انٹیلیجنس) کے ایجنٹس تھے، انھیں قانون کا سامنا کرنا پڑے گا۔‘

سکھ برداری انڈیا میں ایک اقلیت ہے جو اس کی آبادی کا دو فیصد حصہ ہے۔ اس کے بعض گروہ ’خالصتان‘ تحریک کا حصہ ہیں جو انڈیا میں الگ ملک کا مطالبہ کرتے ہیں۔

1980 کی دہائی میں ایک مسلح بغاوت کے ساتھ اس مطالبے نے شدت اختیار کی تھی جسے بعد میں کچل دیا گیا اور اس سے ہزاروں ہلاکتیں ہوئیں۔ تاہم بیرون ملک سکھ برداری کے کچھ گروہ آج بھی خالصتان تحریک کا حصہ ہیں۔

امریکہ میں اس مبینہ قتل کے منصوبے سے قبل کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے بغیر ظاہر کیے ’مصدقہ شواہد‘ کی طرف اشارہ کیا تھا جو جون کے دوران برٹش کولمبیا میں سکھ رہنما کے قتل کو انڈین حکومت سے جوڑتے ہیں۔ تاہم انڈیا نے اس قتل میں کوئی بھی کردار ادا کرنے کی تردید کی ہے۔

ٹروڈو نے کہا کہ بدھ کو فرد جرم عائد ہونے پر انڈیا کو یہ الزامات سنجیدگی سے لینے ہوں گے۔

گرو پتونت سنگھ پنون

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشنپراسیکیوٹرز نے اس منصوبے کے ہدف کا نام ظاہر نہیں کیا۔ تاہم امریکی میڈیا کے مطابق یہ مبینہ منصوبہ امریکی اور کینیڈین دہری شہریت کے حامل گرو پتونت سنگھ پنون کے قتل کا تھا جو امریکہ میں قائم سکھ علیحدگی پسند گروہ کے رکن ہیں

انڈیا کے انسٹیٹیوٹ آف کانفلکٹ مینیجمنٹ کے سربراہ اجے ساہنی کا کہنا ہے کہ ’کینیڈا اور امریکہ کے تنازعے کا موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔ کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے کوئی ثبوت پیش کیے بغیر پارلیمنٹ میں انڈیا کے ملوث ہونے کے بارے میں بیان دیا تھا۔

’انھوں نے اس تنازعے کو ایک پبلک ایشو بنا دیا۔ اس عمل میں انڈیا کو شرمندہ کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس معاملے نے وزیر ا‏عطم مودی اور ٹروڈو کے درمیان ذاتی ٹکراؤ کی صورتحال پیدا کر دی تھی۔ اس کے برعکس امریکہ نے ایسا کوئی ایسا بیان نہیں دیا جس میں انڈیا کی تذلیل کا کوئی پہلو سامنے آیا ہو۔‘

انھوں نے کہا کہ ’اس تنازعے سے انڈیا کے مقابلے میں کینیڈا پر زیادہ منفی اثر پڑا ہے۔ داخلی سطح پر اگر دیکھا جائے تو اس سے مودی حکومت کو سیاسی طور پر کچھ فائدہ ہی ہوا ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اس طرح کی کوئی بات امریکہ کے معاملے میں نہیں نظر آ رہی ہے۔ جب تک امریکہ اسے ایک بین الاقوامی معاملہ یا پبلک ایشو نہ بنا دے تب تک اس کا اثر کریمنل تفتیش کی حد تک محدو رہے گا۔‘

اجے ساہنی کہتے ہیں کہ ’انڈیا اور امریکہ کے تعلقات بہت کمپلیکس اور گہرے ہیں۔ اس معاملے سے رشتوں کے ایک پہلو پر اثر پڑا ہے۔

’لیکن ایسے معمالات میں ملکوں کے درمیان پس پردہ باتیں ہوتی رہتی ہیں تاکہ صورتحال مزید بگڑنے سے روکی جا سکے۔ یہ معاملہ اگرچہ گمبھیر ہے لیکن اس پر دونوں ممالک سنبھل کر چل رہے ہیں۔‘

اجے ساہنی کا کہنا ہے کہ ’اگر کینیڈا اور امریکہ کے الزامات کو صحیح مان لیا جائے تو یہ جاننا ضروری ہے کہ اس طرح کے آپریشن سے کوئی طویل مدتی فائدہ نہیں ہوتا۔ اس طرح کے بیانات دینا کہ ’گھر میں گھس کر ماریں گے‘ عسکری حکمت عملی کے لحاظ سے کوئی مدبرانہ بیان نہیں ہے بلکہ یہ بہت چھوٹے معیار کی باتیں ہیں۔ ممالک اور ریاستیں ایسی زبان نہیں ہوتیں۔ اس کا حشر آگے چل کر منفی ہی ہوتا ہے۔‘

اجے ساہنی کے مطابق ’اگر انڈیا ان معاملات میں ملوث ہے تو یہ صاف ظاہر ہے کہ یہ ایک ناکام مہم تھی۔ اگر آپ ایسی حرکت کرنے جا رہے ہیں تو کم از کم اس طرح تو کریں کہ وہ سامنے نہ آئے۔‘

وہ مزید کہتے ہیں ’ایسے آپریشن میں دانشمندی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس طرح کے آپریشن دوست ممالک میں نہیں کیے جاتے۔ اگر اس طرح کی حرکتیں آپ پاکستان میں کرتے تو آپ سے کوئی سوال نہیں پوچھتا۔

’لیکن اگر آپ یہی کام مغربی جمہوریتوں اور کینیڈا اور امریکہ جیسے ممالک میں کریں گے تو اس کا اثر منفی اور طویل مدتی ہو گا۔‘

’ہٹ مین‘ جو دراصل انڈر کوور امریکی ایجنٹ تھا

پراسیکیوٹرز نے کہا ہے کہ نکھل گپتا کو مئی کے دوران انڈین حکومت کے ایک ملازم نے بھرتی کیا تھا جن سے وہ دلی میں ملے تھے اور انھوں نے وہاں اس ممکنہ منصوبے پر بات چیت بھی کی تھی جبکہ بعد میں بعض اوقات گپتا انھیں ہندی میں وائس نوٹس بھیجا کرتے تھے۔

پراسیکیوٹرز کے مطابق گپتا کو یقین دہانی کروائی گئی تھی کہ انڈیا میں ان کے خلاف زیر التوا ایک فوجداری کیس کا معاملہ حل کر دیا گیا ہے اور اب ’گجرات پولیس سے کوئی انھیں کال نہیں کرے گا۔‘ گپتا کو گجرات کے ڈپٹی کمشنر سے ملاقات کی بھی پیشکش کی گئی۔

پراسیکیوٹرز کے مطابق انڈین حکومت کے اہلکار نے مبینہ طور پر کہا تھا کہ ’ہم ڈیڑھ لاکھ ڈالر دینے کو تیار ہیں۔۔۔ کام کے معیار کے حساب سے یہ آفر مزید اوپر جائے گی۔‘

فردِ جرم کے مطابق گپتا نے مبینہ طور پر یہ تجویز دی کہ وہ ہدف کے سامنے کلائنٹ بن کر جائیں گے تاکہ وہ انھیں ’ورغلا کر ایک جگہ پر لاسکیں جہاں انھیں باآسانی قتل کیا جا سکے گا۔‘

اس میں کہا گیا ہے کہ وہ نیو یارک شہر میں ایک ہٹ مین سے ملنے کا ارادہ رکھتے تھے مگر پھر وہ ایک انڈر کوور ایجنٹ سے ملے جس نے ایک لاکھ ڈالر کے بدلے قتل کرنے کی حامی بھری۔

امریکی حکام کے مطابق ابتدائی طور پر گپتا نے مبینہ طور پر ایک جرائم پیشہ شخص سے رابطہ کیا تھا جو کہ دراصل منشیات کی روک تھام کے ادارے ’ڈی ای اے‘ کا مخبر تھا۔ اس مخبر نے انھیں ہٹ مین سے ملایا جو ڈی ای اے کا انڈر کوور ایجنٹ تھا۔

امریکی حکام کے دستاویزات کے مطابق گپتا نے ایک لاکھ ڈالر ایڈوانس مانگے مگر انڈین اہلکار نے اس سے انکار کر دیا۔ گپتا نے مبینہ طور پر کہا کہ نیو یارک میں ان کے ساتھی کے پاس ہٹ مین کو ایڈوانس پیمنٹ (پیشگی ادائیگی) کرنے کے لیے پیسے نہیں ہیں، لہذا انھیں ’یہیں دلی میں ادائیگی کی جائے۔‘

پراسیکیوٹر کے مطابق 9 جون کو انڈین اہلکار نے گپتا کو میسج بھیجا کہ ’بھائی جی۔۔۔ آج پیمنٹ ہو جائے گی۔ ہم ٹیم کو متحرک کرتے ہیں اور رواں ہفتہ وار چھٹیوں پر کام کر دیتے ہیں۔‘ گپتا نے انڈر کوور ایجنٹ کو پیغام بھیجا کہ دوپہر تک ’پارسل‘ مل جائے گا۔ یوں اس قتل کے لیے مبینہ طور پر ایجنٹ کو 15 ہزار ڈالر کی ایڈوانس ادائیگی کی گئی۔

فرد جرم کی دستاویزات میں اس مبینہ ادائیگی کی تصویر شامل ہے۔ گپتا نے اس ادائیگی کا انڈین حکومت کے اہلکار کو بتایا جس نے ’او کے بھائی جی‘ کا میسج بھیجا۔

ہردیپ سنگھ نجار

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشنہردیپ سنگھ کا قتل انڈیا اور کینیڈا کے درمیان سفارتی بحران کا سبب بنا تھا

انڈیا، امریکہ سفارتی ملاقاتوں کے دوران قتل نہ کرنے کی ہدایت

پنوں سکھ علیحدگی پسند رہنما ہردیب سنکھ نجر سے بھی رابطے میں رہتے تھے جنھیں جون کے دوران کینیڈا میں نقاب پوش مسلح شخص نے قتل کیا تھا۔

نجر کے قتل کے بعد گپتا کو مبینہ طور پر اس انڈین اہلکار کی طرف سے ایک ویڈیو بھیجی گئی جس میں نجر کی ’خون سے لت پت لاش ان کی گاڑی میں‘ دیکھی جا سکتی ہے۔

فرد جرم کے مطابق انڈین اہلکار نے پھر دوسرے ہدف کا پتہ گپتا کو بھیجا تھا۔

گپتا نے مبینہ طور پر انڈر کوور ایجنٹ کو بتایا کہ ’نجر بھی اہداف میں شامل تھے‘ اور ’ہمارے کئی اہداف ہیں‘۔

نجر کے قتل کے بعد انھوں نے مبینہ طور پر کہا ’اب مزید انتظار کی ضرورت نہیں۔‘ انڈین اہلکار کی طرف سے مبینہ طور پر گپتا کے ساتھ ایک خبر شیئر کی گئی اور کہا گیا کہ ’یہ اب ترجیح ہے‘۔

امریکی پراسیکیوٹر کے مطابق گپتا نے مبینہ طور پر انڈر کوور ایجنٹ کو ہدایت دی تھی کہ یہ قتل امریکہ اور انڈیا کے درمیان اعلیٰ سطحی سفارتی ملاقاتوں اور رابطوں کے دوران نہیں کیا جانا چاہیے۔

گپتا نے اس ’ہٹ مین‘ کو سمجھایا بھی تھا کہ ہدف ایک سماجی کارکن ہے جس کی موت کے بعد مظاہرے ہو سکتے ہیں اور اس سے ’سیاسی معاملات‘ پیدا ہو سکتے ہیں۔

پراسیکیوٹرز کا کہنا ہے کہ گپتا نے ڈی ای اے کے مخبر اور انڈر کوور ایجنٹ کو بارہا بتایا تھا کہ انڈیا سے ان کے ساتھ شریک منصوبہ ساز وسائل رکھتے ہیں اور اس کی نگرانی کر رہے ہیں۔

گپتا نے مبینہ طور پر کہا کہ قاتل کی زندگی اس ہدف سے بدل جائے گی کیونکہ ’ہمارے پاس اس سے بھی بڑے کام ہیں۔ ہر مہینے دو سے تین کام۔‘

29 جون کو گپتا نے انڈر کوور ایجنٹ کو پیغام بھیجا کہ ہمارے پاس انٹیلیجنس معلومات ہے کہ ہدف اپنے گھر واپس آ چکا ہے اور آج ہر صورت باہر نکلے گا۔ ایجنٹ کو کہا گیا کہ ہو سکے تو قتل کے بعد کے مناظر بنائے جائیں۔

30 جون کو گپتا انڈیا سے چیک ریپبلک گئے جہاں انھیں امریکہ کی درخواست پر گرفتار کر لیا گیا۔ ان کی امریکہ منتقلی کا معاملہ فی الحال زیر التوا ہے۔

اس مبینہ منصوبے کو ناکام بنانے میں امریکہ میں منشیات کی روک تھام کے ادارے ڈی ای اے نے اہم کردار ادا کیا ہے۔

ایڈمنسٹریٹر ڈی ای اے این ملگرام نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ایک غیر ملکی حکومت کے اہلکار نے مبینہ طور پر ’انٹرنیشنل نارکوٹکس ٹرافیکر کو امریکی سرزمین پر امریکی شہر کے قتل کو بھرتی کیا جسے ڈی ای اے نے ناکام بنایا۔‘

امریکی اٹارنی ڈیمین ولیمز نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’میں شکر گزار ہوں کہ میرے دفتر اور ہمارے قانون نافذ کرنے والے شراکت داروں نے اسے ناکام بنایا۔‘

’ہم امریکی سرزمین پر امریکی شہریوں کو قتل کرنے کی کوششوں کو برداشت نہیں کریں گے۔ جو بھی یہاں یا بیرون ملک امریکیوں کو نقصان پہنچانے اور خاموش کرنے کی کوشش کرے گا، ہم اسے ناکام بنائیں گے، اس کی تحقیقات کریں گے اور اس پر کارروائی ہو گی۔‘

Source link

Facebook
Twitter
LinkedIn
Pinterest
Pocket
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

Related News

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *